اتر پردیش اسمبلی انتخاب کے پیش نظر تمام سیاسی پارٹیوں نے حکمت عملی بنانی شروع کردی ہے جب کہ اس بار ریاست میں ایم آئی ایم کی انٹری کے بعد سیاسی پارہ مزید چڑھا ہوا ہے۔ اسی سلسلے میں کانپور میں اسدالدین اویسی نے انتخابی بگُل بجادیا۔ وہ کانپور میں بھی اپنی پارٹی سے امیدوار میدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔
کانپور پہنچے اسدالدین اویسی اسدالدین اویسی کے کانپور پہنچنے پر پارٹی کارکنان نے شاندار استقبال کیا اور کانپور سرحد سے جاجمئو جلسہ گاہ تک لے گئے۔
اسد الدین اویسی نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے این آر سی کے خلاف ہوئے احتجاج میں پولیس کے ذریعے سے مظاہرین پر فائرنگ میں جان بحق ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا اس کے بعد انہوں نے کانگریس، بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہی تینوں پارٹیاں مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہیں۔
خود پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی بی ٹیم ہونے کے الزام کو خارج کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے کہا کہ جو پارٹیاں یہ کہتی ہیں کہ مسلمان ایک ہوجاؤ وہ اصل میں مسلمانوں کی رہنما نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں جس کی طاقت ہوتی ہے اس کی آواز سنی جاتی ہے جس کے پاس آواز نہیں ہے ایم ایل اے نہیں ہے ممبر آف پارلیمنٹ نہیں ہے ان کو یتیم سمجھا جاتا ہے۔
اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ 'مسلمانوں کو سیکولر بننے کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن خود لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اتر پردیش میں 100 ایسے لیڈر پیدا ہوں جو اویسی سے بہتر بنیں۔ مجھے آپ سے شکایت ہے کہ آپ نے اب تک اپنا کوئی لیڈر نہیں منتخب کیا اب آپ کو تبدیلی لانی پڑے گی۔
اویسی نے کہا کہ 'یوپی میں ٹھاکروں، برہمنوں، یادوؤں کا ایک بڑا لیڈر ضرور ہے، لیکن مسلمانوں کا آج تک کوئی لیڈر نہیں ہے جو اپنے حقوق کی بات کرے۔ انہوں نے سیسامئو کے رکن اسمبلی عرفان سولنکی اور کینٹ ایم ایل اے سہیل انصاری کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ یہاں کے مسلم ایم ایل اے نے کبھی بھی سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔
اویسی نے سماجوادی پارٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 'مسلمانوں کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سماجوادی پارٹی، سماجی انصاف کے لیے دلت مسلم اتحاد کی بات کرنے والی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کسی نے بھی مسلمانوں کو قیادت نہیں دی، وہ انہیں الزام کو اتر پردیش میں اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اترپردیش کی آبادی میں مختلف ذاتیں ہیں، جو کم و بیش اپنی قیادت رکھتے ہیں، لیکن مسلمان جو 19 فیصد سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں، ان کی کوئی رہنما نہیں ہے۔ ریاست میں 82 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں، جہاں پر مسلم ووٹر جیت یا ہار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن سیاسی شراکت کے نام پر ان کے بیگ میں کچھ خاص نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب جب اویسی مسلمانوں کو قیادت دینے کی بات کررہے ہیں تو ان جماعتوں میں ہنگامہ برپا ہوگیا ہے جو اس برادری کو اپنا سیاسی غلام سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ قبل ازیں سماج وادی پارٹی کے سینیئر لیڈر ابو عاصم اعظمی نے اویسی پر تنقید کرتے ہوئے 'ووٹ کٹوا' کہا، اعظمی نے اویسی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'مسلمانوں نے ہمیشہ انتخابات میں ایس پی کا ساتھ دیا ہے اور بی جے پی نے اویسی کی پارٹی کو آئندہ اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹ کو تقسیم کرکے ایس پی کو نقصان پہنچانے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کانپور: سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو صرف استعمال کیا
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسلمان بی جے پی کی شرط کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں اور وہ کسی کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔