اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جارہا ہے۔ دارالحکومت لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پر ہونے والا احتجاجی مظاہرہ ساتویں دن بھی جاری ہے۔ مختلف شعبہ ہائے حیات کی شخصیات نے جائے احتجاج پر پہنچ کر تحریک کاروں کا حوصلہ بڑھایا۔
لکھنؤ کے حسین آباد میں واقع گھنٹہ گھر پر ہونے والا احتجاجی مظاہرہ ریاست کے دیگر اضلاع میں ہونے والے مظاہروں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ لکھنؤ کے ساتھ ہی کانپور، پریاگ راج، اعظم گڑھ، مئو، رائے بریلی اور وارانسی میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ وارانسی میں پولیس نے خاتون مظاہرین کے خلاف اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرے کو ختم کرادیا۔
لکھنؤ میں ہونے والے مظاہرے میں خواتین کو مکمل حمایت مل رہی ہے۔ ہر شعبہ ہائے حیات کی شخصیات وہاں پہنچ رہے ہیں۔ تحریک کار خواتین سمیت بچے و طالبات اپنے اپنے فنوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے اسے واپس لینے کا پیغام عام کررہے ہیں۔
احتجاج میں موجود بھاری تعداد میں بچوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور تختیاں ہیں جن پر ہندو مسلم سکھ عیسائی، آپس میں ہیں بھائی بھائی کے پیغامات لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب پر مبنی شہریت منظور نہیں جیسے نعرے آویزاں ہیں۔
معصوم چہروں پر ترنگے کی پینٹنگ ہے، خواتین کی ہاتھوں میں آئین ساز بابا صاحب امبیڈکر کی تصویر ہے تو لڑکیاں ترنگا کو ہی اپنا حجاب بنارہی ہیں۔
آج جہاں دہلی کے شاہین باغ سے آئی خواتین کے ایک وفد نے خطاب کیا تو وہیں سکھ سماج کے افراد نے بھی پہنچ کر تحریک کار خواتین کے حوصلوں کو سلام کرتے ہوئے ان کو اپنی حمایت دی۔ پولیس کی یک طرفہ کاروائی کے باجود آج تحریک کاروں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔
کڑاکے کی ٹھنڈ اور رات بھر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنے والی خواتین میں کئی بیمار بھی ہوئیں ہیں لیکن ان کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
بدھ کو وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سےعورتوں کے ضمن میں کئے گئے تبصرے کو خاتون مخالف قرار دیتے ہوئے تحریک کار خواتین نے کہا کہ وزیر اعلی کا یہ بیان خواتین کی تئیں ان کی ذہنیت کا عکاس ہے۔
تحریک کار خواتین نے کہا کہ افسوس کے بات ہے کہ وزیر اعلی کو اس قانون کے خلاف پوری ریاست میں سڑکوں پر اتری خواتین میں صرف مسلم خواتین نظر آرہی ہیں جو کہ حقیقت سے منھ چرانے کے مترادف ہے۔ حقیت یہ ہے کہ آج سبھی طبقے کے افراد سراپا احتجاج ہیں کیونکہ شہریت کا معاملہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہندو بھی اس میں شامل ہیں۔
جتنی تعداد میں مسلم خواتین اس مظاہرے میں شرکت کررہی ہیں اتنی ہی تعداد میں ہندو خواتین بھی شرکت کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی خواتین سے ڈرے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ایسے بے تُکے بیان دے رہے ہیں۔انہوں نے خواتین کے ضمن میں دئے گئے بیان پر معافی کا مطالبہ بھی کیا۔
قابل ذکر ہے کہ لکھنؤ میں دھرنے کو ختم کرانے کے لئے پولیس ہر حربے کو اپنارہی ہے۔ جائے احتجاج کے آس پاس کے علاقوں میں جہاں انٹرنیٹ کی اسپیڈ کافی کم ہے تو وہیں رات ہوتے ہی آس پاس کی ساری لایٹیں بند کر دی جاتی ہیں۔ وہیں گومتی نگر کے اجریاؤں میں بھی احتجاجی مظاہرے چوتھے دن جاری رہا۔
دسمبر میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے سی اے اے کے پاس ہوجانے اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کا یہ احتجاجی مظاہرہ بھی اسی کڑی کا ایک حصہ ہے۔
اس سے قبل یو پی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے داغے اور سینکڑوں کو گرفتار کیا تھا۔ احتجاجی مظاہروں میں تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد تقریبا 23 افراد کی جانیں بھی گئیں تھیں۔ اس کے بعد یو پی میں خوف کی لہر سی دوڑ گئی ہے۔
لیکن بعد میں دہلی کے شاہین باغ سے تحریک حاصل کرنے کے بعد پہلے کانپور پھر پریاگ راج اور اس کے بعد لکھنؤ میں شروع ہونے والا احتجاج دن بدن بڑھتا اور منظم ہوتا جارہا ہے۔ جمعرات کو بھی احتجاج کے لئے گھنٹہ گھر پہنچنے والی خواتین و بچوں کے ہاتھوں میں ترنگا، پلے کارڈس اور بینر اور زباں پر حب الوطنی کے نعرے تھے۔ خواتین احتجاج میں پہنچ کر سی اے اے کے واپسی تک احتجاج کو جاری رکھنے کے لئے اپنے عزم واستقلال کا اظہارکررہی ہیں۔