شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اے ایم یو کیمپس میں احتجاج کے دوران فرحان زبیری کے خلاف تھانہ سول لائن میں کئی مقدمے درج کئے گئے تھے۔ جس کے بعد پولیس نے فرحان زبیری کو گزشتہ روز حراست میں لے کر جیل بھیج دیا۔
فرحان زبیری پر الزام ہے کہ انہوں نے 15 دسمبر 2019 کی شب میں یونیورسٹی سرکل پر پولیس کے اوپر یونیورسٹی کے دیگر طلبہ کے ساتھ مل کر پتھراؤ کیا، احتجاج کے دوران غلط بیان بازی، پتلے نذرآتش کرنے اور سرکاری جائیداد کو نقصان پہنچانے کے خلاف ان پر مقدمہ درج کیا گیا۔
اس تعلق سے رہا ہونے کے بعد رویش علی خان نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کل تقریبا 12 بجے مڈراک چوکی سے ایس او جی ٹیم نے حراست میں لیا تھا اس کے بعد ہم لوگوں کو مڈراک تھانے لے گئے تھے۔
پولیس حکومت کو بچا رہی ہے انہوں نے بتایا کہ حراست میں لینے کا مقصد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج تھا۔ فرحان زبیری کو حراست میں لیا وہ اس وقت علی گڑھ ضلع جیل میں ہیں اور مجھے (رویش علی) اس لیے چھوڑ دیا کیونکہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فرحان زبیری کے خلاف احتجاج کے وقت بہت سارے مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ماہ دسمبر میں کافی مقدمات میں اس کو نامزد کر کے جیل بھیجا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ کل وہ لوگ راجستھان کے الور میں پھنسے اپنے ایک جونیئر کو لانے کے لئے جا رہے تھے ۔ جس کی اجازت خود اے سی ایم صاحب نےدی تھی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرا ایک پیغام ریاست اترپردیش کی پولیس اور ہندوستانی پولیس سے ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کے والد بھی پولیس میں ہیں تو وہ بھی چند چیزیں جانتے ہیںکہ جب ایک پولیس والا پولیس کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے تو اس وقت وہ آئین کو بچانے کی قسم کھاتا ہے۔ لیکن اگر موجودہ حالات کی بات کریں توپولیس صرف حکومت کو بچا رہی ہے۔ ملک میں یہ نہیں ہونا چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ جو طلباء کسی چیز کی مخالفت کرتے ہیں تو اسے جیل میں ڈال دیا جا تا ہے ۔ صفورہ زرگر تین ماہ کی حاملہ ہیں۔ کورنا کے اس عالم میں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا، میران حیدر، شرجیل امام، عامر منٹو جس نے رمضان میں غریبوں کو کھانا کھلایا وہ آج علی گڑھ جیل میں ہے۔
رویش علی خان نے مزید بتایا فرحان زبیری جس نے کسی چیز کی پرواہ کئے بغیر پورے وقت اپنے پیسے، اپنی گاڑی سب کچھ قوم کے لیے صرف کردی ،مگر آج وہ جیل میں ہے۔ یہ چیز نہیں ہونی چاہیے یہ چیزیں غلط ہے۔ ہر کسی کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ اور حکومت سے کوئی امید بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو بے روزگار پر ،مزدوروں کی حالت پر ، معشیت، پر بات کرنی چاہیے۔ مگر ان معاملوں پر وہ خاموش ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اترپردیش پولیس سے امید ہے ۔امید اس لئے ہے کہ کیونکہ انہوں نے پولیس میں شمولیت کے وقت آئین کو بچانے نے کی قسم کھائی تھی ۔ اگر اس پر کام کریں تو شاید یہ نظام صحیح ہوسکتا ہے ورنہ اس کے بغیر یہ نظام صحیح نہیں ہو سکتا۔