حیدرآباد: اترپردیش کے بریلی سے کوشامبی جانے والی بس کے رکنے کے دوران نماز پڑھنے کا معاملہ مسلسل زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اب اس معاملے میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے اپنا ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے اتوار کو جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنا سخت ردعمل دیا۔ آپ کو بتا دیں کہ کچھ دن پہلے یوپی کے بریلی سے کوشامبی جانے والی اے سی جنرتھ بس راستے میں رکی تھی، اس دوران دو مسلمان شخص بس سے اتر کر نماز پڑھنے لگے تھے۔
اس معاملے میں کارروائی کرتے ہوئے بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ اسد الدین اویسی نے جلسہ عام میں اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'بس اتر پردیش کے بریلی سے جا رہی تھی۔ ہم نماز پڑھتے ہیں۔ صرف دو مسلمانوں نے نماز پڑھی... چنانچہ کرشنپال سنگھ ڈرائیور کو معطل کر دیا گیا اور موہت یادو کو برخاست کر دیا گیا۔'
اویسی نے مزید کہا کہ 'اگر نماز پڑھی جائے تو کیا قیامت آ گئی؟' انہوں نے کہا کہ اگر نماز پڑھنا جرم ہے تو تمام سرکاری دفاتر میں مذہبی علامتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ کسی بھی ضلع مجسٹریٹ کے دفتر کا افتتاح ہو، سیکرٹریٹ ہو یا کوئی سرکاری کام، کوئی مذہبی رسم نہیں ہونی چاہیے۔ بس دو منٹ رکی تو آپ نے بس ڈرائیور کو معطل کر دیا اور کنٹریکٹ کنڈکٹر کو نوکری سے نکال دیا۔ آپ سب کے تعاون، سب کی ترقی، سب کے اعتماد کی بات کرتے ہیں۔'
قابل ذکر ہے کہ تین جون کو شام سات بجے سرکاری اے سی جنرتھ بس بریلی ڈپو سے کوشامبی جا رہی تھی۔ سیٹلائٹ بس اسٹینڈ سے بس میں بیٹھے مسافروں نے کنڈکٹر سے کہا کہ انہیں نماز پڑھنی ہے۔ بس کے رکنے کے بعد دو مسلم نوجوانوں نے سڑک کے کنارے نماز ادا کی۔ بس میں بیٹھے دیگر مسافروں نے اس واقعہ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ بس میں بیٹھے دیگر لوگوں نے نماز پڑھنے کی ویڈیو بنا کر روز ویز کے حکام کو بھیج دیا اور سوشل میڈیا پر بھی ڈال دیا، جس کے بعد یہ معاملہ زور پکڑنے لگا اور ڈرائیور اور کنڈکٹر کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: Namaz on National Highway بریلی میں ایک عجیب معاملہ، مسلمان مسافروں کے نماز ادا کرنے پر بس ڈرائیور معطل