ادھمپور:جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ آج جہاں باقی ملک میں جمہوریت کے گُن گائے جارہے ہیں، جمہوریت کا جشن منایا جارہا ہے اور کچھ سیاسی دفاتر میں ماتم چھایا ہوا ہے ، وہیں جموں وکشمیر کے عوام صرف اس کا تماشہ دیکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم صرف دوسروں کی جیت پر تھوڑی خوشی اور دوسروں کی ہار پر تھوڑا افسوس کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ان باتوں کا اظہار انہوں نے اتوار کو ٹکری ادھمپور میں یک روزہ ڈیلی گیٹ زون کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ لوگ ہمیں جمہوریت پنجاب کے بارڈر کے پاس دکھاتے ہیں لیکن اس کے آگے اسے آنے نہیں دیتے ہیں، ہمیں تو پہلے لگ رہا تھا کہ انہیں صرف اسمبلی انتخابات سے نفرت ہے اور باقی چیزیں ہوتی رہیں گے لیکن اب ثابت ہوا ہے کہ انہیں صرف اسمبلی سے ہی نفرت نہیں بلکہ یہ لوگ جموں وکشمیر میں پنچایتی راج اور بلدیاتی نظام کے بھی خلاف ہیں اور ان کا بس چلے تو ان ڈی ڈی سی ممبران کو بھی ختم کرکے کہیں پر بٹھا دیں گے۔
آخر کار جموں وکشمیر کے عوام کی کیا خطا ہے، جو انہیں جمہوری حق سے محروم رکھا جارہا ہے اور انہیں اپنی اسمبلی چننے کا موقع بھی نہیں دیا جارہاہے۔ اُلٹا یہاں ہم پر بے تاج بادشاہ مسلط کئے گئے ہیں، جو جموں وکشمیر سے متعلق فیصلے لیتے ہیں لیکن ان فیصلوں میں عوام کی شمولیت نہیں ہوتی ہے۔
انہوں نے چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر مستقبل میں انڈیا اتحاد کے نتائج ایسے رہے تو ہم جیت نہیں سکتے۔انہوں نے کہا کہ ان انتخابات میں بی جے پی کو مبارکباد دی جانی چاہیے کیونکہ ہمیں اس نتیجے کی امید نہیں تھی۔ ہم اپنے اتحادیوں سے سن رہے تھے کہ چھتیس گڑھ میں کانگریس آسانی سے اقتدار میں آجائے گی، وہیں مدھیہ پردیش میں بھی جیت جائے گی۔ تلنگانہ میں پراعتماد ہیں اور وہ یہاں تک کہہ رہے تھے کہ آخرکار وہ راجستھان میں بھی فتح یاب ہوں گے اور جب نتائج سامنے آئے تو تلنگانہ میں ان کا دعویٰ ہی سچ ثابت ہوا۔نہ تو وہ چھتیس گڑھ میں حکومت بچا سکے، نہ مدھیہ پردیش کو جیت سکے اور نہ ہی وہ راجستھان میں دوبارہ جیت سکے۔
دفعہ370 کے معاملے پر ملک کو گمراہ کرنے پر مرکزی حکومت اور بھاجپا لیڈران کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ”یہ لوگ آئے روز تقریریں کرتے ہیں کہ دفعہ370 کے یہ منفی اثرات تھے، دفعہ370 کے وہ منفی اثرات تھے۔ لیکن میں آج مرکزی حکومت اور بھاجپا لیڈران سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ دفعہ370 ہٹنے کے بعد جموں و کشمیر کے عوام کو کیا ملا؟ اس دفعہ کے ہٹنے کے بعد آپ نے جموں وکشمیر کے عوام کو کون سا فائدہ پہنچایا؟“
اُن کا کہنا تھا کہ ”دفعہ 370 سے اگر کچھ نہیں تو یہاں کے عوام کو زرعی اصلاحات کے ذریعے بغیر معاوضہ زمینوں پر مالکانہ حقوق ملے، جس کی مثال ملک کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے، ملکی عوام کو جہاں چند برس پہلے تعلیم کا حق حاصل ہوا وہیں جموں وکشمیر میں شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے سکول سے لیکر یونیورسٹی تک مفت تعلیم کا حق 7دہائی قبل دیا تھا اور یہ تب ہی ممکن ہوسکا جب یہاں دفعہ 370 تھا۔ “
انہوں نے کہا کہ آج ہمارے نوجوان روزگار مانگتے ہیں لیکن حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ ہم نے بھی حکومت کی اگر ہم بے روزگاری کو پوری طرح ختم نہیں کرسکے لیکن روزگار کے دروازے بند نہیں کئے، جہاں جہاں سرکاری محکموں میں خالی اسامیاں تھیں وہاں ہم نے بھرتیاں عمل میں لائیں اور جو بے روزگار نوجوانوں تھے اُن کو شیر کشمیر یوتھ پروگرام کے تحت وظیفہ دیتے تھے ، آج نہ صرف وظیفہ بند ہوا ہے بلکہ بھرتی عمل بھی ٹھپ ہے۔ ہم دیہاتوں جاکر ڈی جی بھرتی کرواتے تھے۔