اردو

urdu

ETV Bharat / state

زندہ طلسمات کے سو برس پر خصوصی پیشکش - زندہ طلسمات کا ایجاد

حیدرآباد کے نظام کی فوج میں افریقی نژاد شہری اعلی عہدوں پر فائز تھے جو شاہی خاندان کے خصوصی سیکورٹی گارڈ کے فرائض انجام دیتے تھے۔ اس دور میں یہ لوگ کافی طاقتور اور تندرست و توانا سمجھے جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ زندہ طلسمات پر افریقن نیگرو، کا لوگو لگایا گیا، تاکہ عوام میں یہ مقبول ہو اور وہ اس کا استعمال کریں۔

Zinda tilismat
Zinda tilismat

By

Published : Nov 5, 2020, 5:41 PM IST

ایک افریقن کافی بیمار تھا کوئی اس کا علاج نہیں کرتا تھا۔ ہمارے دادا جا کر پہلے اس کا علاج کیے اور علاج کرنے کے بعد وہ ٹھیک ہو گیا۔دراصل افریقن اس زمانے میں کافی مضبوط ہوتے تھے۔

زندہ طلسمات کے سو برس

زندہ طلسمات کے باٹل پر افریقن نیگرو اور نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے تاج کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ یہی تصویر زندہ طلسمات کے اصلی ہونے کی شناخت بھی ہے۔

کورونا وائرس کے اس دور میں دنیا کی نظریں آیوروید اور یونانی طریقہ علاج کی طرف ایک بار پھر مرکوز ہوئی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت تلگو ریاستوں میں خاص طور پر لوگ، ماسک سنیٹائزر کے استعمال کے ساتھ ساتھ زندہ طلسمات کا بھی خوب استعمال کر رہے ہیں۔

جب سے یہ میڈیل کھلا ہے، زندہ طلسمات کو فروخت کیا جاتا ہے۔ اور عوام بھی اس سے خاص فائدہ حاصل کر ہی ہے۔ میں نے بھی اس کا ذاتی طور پر استعمال کیا، اس سے کافی فائدہ ہوا۔کئی امراض مثلاً سردی، کھانسی اور موسمی بیماریوں کے لیے بھی بہت مفید ہے۔

زندہ طلسمات کا ایجاد 1920 میں مرحوم حکیم محمد معیز الدین فاروقی نے کیا تھا۔ زندہ طلسمات کو ایجاد ہوئے سو برس ہو چکے ہیں لیکن آج بھی اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

زندہ طلسمات یونانی جڑی بوٹیوں کا مرکب ہے جسے ایک خاص طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سردی، کھانسی، نزلہ، زکام، گلے میں درد و خراش، جسم میں درد اور دیگر عام بیماریوں سمیت موسمی بیماری کی مجرب دوا سمجھی جاتی ہے اور جنوبی بھارت میں ہر خاص و عام اس کا استعمال کرتا ہے۔

ابھی کیوں کہ اویئرنس بڑھ رہا ہے، کووڈ کے چکر میں تو لوگ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ اس کو پی بھی سکتے ہیں کیا؟ حالانکہ ہم شروع سے بول رہے ہیں کہ یہ پینے کی دوا ہے۔ یہ ایسی دوا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کے دودھ میں ملا کر پلا سکتے ہیں، حاملہ خاتون اس کا استعمال کر سکتی ہیں۔

زندہ طلسمات کے موجد مرحوم حکیم محمد معیز الدین فاروقی نے شکاگو میڈیکل کالج آف ہومیوپیتھی سے میڈیسن اینڈ سرجری کی تعلیم حاصل کی اور اس پر وہاں طویل عرصے تک ریسرچ کیا۔ ریسرچ مکمل کرنے کے بعد وہ حیدرآباد لوٹ آئے۔ حیدرآباد کے موتی مارکیٹ میں انہوں نے اپنا دواخانہ شروع کیا۔ یہیں پر انہوں نے ریسرچ سنٹر کی بنیاد ڈالی اور زندہ طلسمات کے نام سے دوا بنانی شروع کی۔

مرحوم حکیم محمد معیز الدین فاروقی اس دوا کو عوام تک پہنچانے کے لئے شب و روز تگ و دو کیا کرتے تھے۔ گاؤں اور دیہاتوں کا سفر کرتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ افریقی نژاد 'نیگرو' کو بھی رکھتے تھے تاکہ ان کی صحت دکھاکر لوگوں کو صحتمند رہنے کی تلقین کی جا سکے اور لوگوں کو زندہ طلسمات مفت دے کر اس کے فوائد بتایا کرتے تھے- اس وقت سے لیکر آج تک لوگوں کا اعتماد زندہ طلسمات پر بنا ہوا ہے۔

بچپن سے میں مجھے یہ استعمال کروایا جا رہا ہے اور میں اپنے بچوں کو بھی اسے کبھی کبھی استعمال کرواتا ہوں۔ ہمارے گھر میں ایک بوتل ہمیشہ رہتی ہے۔ جب بھی ہمیں چھوٹی موٹی بیماری ہوتی ہے، فوری طور پر ہم ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے ہیں بلکہ اسی زندہ طلسمات کو پانی میں ڈال کر پلا دیتے ہیں۔

کمپنی کی ادویات تلنگانہ، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش، کرناٹک، مہاراشٹر سمیت متعدد ریاستوں کو سپلائی کی جاتی ہے۔ بیرونی ممالک جیسے امریکہ، سعودی عرب، ابوظہبی سمیت دیگر ممالک میں بھی زندہ طلسمات کو آرڈر ملنے پر بھیجا جاتا ہے۔

کارخانہ زندہ طلسمات جہاں موجود ہے اس بستی کا نام ہی زندہ طلسمات رکھا گیا ہے۔ اس کمپنی نے زندہ طلسمات، فاروقی منجن، زندہ بام جیسی دیگر ادویات بھی بنائی ہیں جس کی شہرت بھی دور دور تک پھیلی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details