تلنگانہ ہائی کورٹ کی سنگل جج بنچ نے جنسی زیادتی کی شکار ایک 16 سالہ بچی کے 26 ہفتے کے حمل کو گرانے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے اسقاط حمل کا یہ حکم ایک ماہر طبی ٹیم کی نگرانی میں دیا ہے۔ اس کے علاوہ بنچ نے کوٹی گورنمنٹ اسپتال حیدرآباد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس عمل کے دوران اور بعد میں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ہائی کورٹ نے جنین کے ٹشو، خون کے نمونے اور ڈی این اے جمع کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کا حکم بھی دیا ہے، تاکہ ملزم کو سزا سنوائی جاسکے۔
واضح رہے کہ خاندان کے ایک فرد نے ہی بچی کے ساتھ زیادتی کی اور اسے دھمکی بھی دی کہ اگر متاثرہ نے یہ بات کسی سے کہی تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 9 ستمبر کو بچی کی طبعیت خراب ہونے کے بعد جب بچی کے والدین اسے کوٹی ہسپتال لے گئے۔ تب ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچی 25 ہفتے کی حاملہ ہے۔ ہسپتال کے ذریعہ اسقاط حمل کی اجازت نہیں ملنے سے متاثرہ لڑکی نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
جس کے بعد جسٹس بی وجے سین ریڈی نے انکوائری اور ماہرین کی سفارش کے بعد ہسپتال کو اسقاط حمل کی اجازت دینے کی ہدایت دی۔
جج نے سماعت کے دوران کہا کہ میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگنینسی ایکٹ کے تحت جنین کی عمر 24 ہفتے سے زیادہ ہونی چاہینے اور عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جب بچے کی عمر اس سے زیادہ ہو تو وہ اسقاط حمل کا حکم دے۔
مزید پڑھیں: کرنال: 14 سالہ ریپ متاثرہ نے اسقاط حمل کی اجازت مانگی
عدالت نے کہا کہ 'جنسی زیادتی کی متاثرہ کے آئینی حقوق جنین کے حقوق سے زیادہ اہم ہیں۔ اگر ایک 16 سالہ بچی شدید ذہنی دباؤ کے ساتھ حاملہ ہے تو نوزائیدہ بچہ کسی بھی صورت میں صحت مند نہیں ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ماؤں کو طبی مسائل کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اس تناظر میں جنین کی زندگی یا بچے کی پیدائش کو درخواست گزار کی زندگی کے مقابلے میں زیادہ تقویت نہیں دی جاسکتی'۔
عدالت نے کہا کہ وقار، عزت نفس اور صحت مند زندگی (ذہنی یا جسمانی)، یہ سب انسان کے بنیادی حق ہیں اور آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت ہندوستان کے ہر شہری کو یہ حق ملتا ہے۔ جس میں عورت کو حمل کا انتخاب کرنے اور اسے ختم کرنے کا حق بھی شامل ہے۔ ایسی صورت میں اگر خاتون ناپسندیدہ، جنسی زیادتی یا جسنی استحصال کی وجہ سے حاملہ ہوتی ہیں تو قانون کے تحت اسے ختم کرنے کی اجازت ہے۔