حیدرآباد: جمعیۃ علماء تلنگانہ کے ضلعی صدور و عہدیداروں کا اجلاس جو حال ہی میں منعقد ہوا تھا میں عوام خصوصاً مسلم اقلیتوں کے ساتھ اختیار کئے گئے رویہ کو سامنے رکھتے ہوئے ریاست تلنگانہ اور ملک کے سیاسی حالات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس نے اس بات پر غور کیا کہ2014کے بعد سے ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ فریب‘ دغا بازی اورمیٹھی باتوں میں الجھا کر رکھنے کا جو سلسلہ گزشتہ دس سال سے چل رہا ہے کیا اس کو جاری رہنے کا موقعہ دینا ہے‘ یا پھر ہم کو اس میں تبدیلی کے لئے کچھ کرنا ہے۔
اجلاس کی صدارت صدر ریاستی جمعیۃ علماء علما تلنگانہ و آندھرا پردیش مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے کی تھی۔جمعیۃ علماء کے ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں کہا گیا کہ ریاست میں حکمران بھارت راشٹر سمیتی نے مسلمانوں کے ساتھ کئی وعدے کئے‘ سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنوں کو پورا کیا گیا۔ 77ہزار ایکڑ اوقافی جائیدادوں کو تباہ کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ 9 سال پہلے آلیر میں انکاؤنٹر میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو پولیس نے ہلاک کیا‘ کئی ایک مساجد کو شہید کیا گیا۔ اردو میڈیم کے سرکاری اسکولوں کو بند کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو روزگار کی فراہمی کی اسکیموں کو ختم کردیا گیا ہے۔ وقف بورڈ کے ریکارڈ کو غیر محفوظ طور پر مہر بند کردیا گیا‘ جس کی حفاظت اور دیکھ بھال کی کوئی ضمانت نہیں۔ مسلم اداروں پر نا اہل اور نا قابل افراد کو نامزد کرتے ہوئے مسلمانوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ بی آر ایس نے دفعہ 370کی منسوخی‘ تین طلاق بل‘ جیسے قوانین کی منظوری کے لئے بی جے پی کی تائید کی۔ سارے ملک میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں‘ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی آر ایس نے اس معاملہ میں بی جے پی مفاہمت کرلی ہے۔ اس لئے اس کو بخش دیا گیا ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک میں سیکولرازم کو باقی و برقرار رکھا گیا ہے‘ اب اس کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ قوم کو جھنجوڑنے کی جو کوشش کی ہے اس کے اچھے نتایج نکلے ہیں۔ کئی سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہیں۔ ملک میں سیاسی تبدیلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری بڑی حد تک مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔