سرزمین دکن ہی نہیں بلکہ برصغیر کے دو ممتاز اساتذہ کرام پروفیسر رفیق فاطمہ، سابق صدر شعبہ فارسی، عثمانیہ یونیورسٹی اور پروفیسر فاطمہ پروین، سابق صدر شعبہ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی کا یوں اچانک یکے بعد دیگرے رخصت ہوجانا دنیائے فارسی و اردو کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
اچھے اساتذہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ دونوں نہایت عمدہ اوصاف و کردار کی حامل شخصیات تھیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر عزیز بانو، صدر شعبہ فارسی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے پروفیسر رفیق فاطمہ اور پروفیسر فاطمہ پروین کے انتقال پر منعقدہ ایک تعزیتی نشست کے دوران اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔
پروفیسر شاہد نوخیز نے کہا کہ پروفیسر رفیق فاطمہ شعبہ فارسی، مانو میں بورڈ آف اسٹڈیز کی رکن تھیں۔ فارسی زبان و ادب کی گراں بہاں خدمات ہی کے ضمن میں گزشتہ آل انڈیا پرشین ٹیچرس کانفرنس میں جو کہ حیدرآباد ہی میں منعقد ہوئی تھی، پروفیسر رفیق فاطمہ کو ”استاد ممتاز“ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔
پروفیسر فاطمہ پروین، مانو کے اسکول آف لینگویجس کی بورڈ ممبر تھیں اور یونیورسٹی کی جانب سے اور شعبہ فارسی کی جانب سے کیے جانے والے سمینارس میں شریک ہوتی تھیں۔ ان کے لیکچرس پرمغز ہوتے تھے۔