حیدرآباد: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے پی ایف آئی پر پابندی لگائے جانے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایف آئی پر تو پابندی لگا دی گئی لیکن اجمیر درگاہ بم بلاسٹ کے مجرمین جن تنظیموں سے وابستہ ہیں ان پر ابھی تک کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔
اگرچہ میں نے ہمیشہ پی ایف آئی کے نقطہ نظر کی مخالفت اور جمہوری نقطہ نظر کی حمایت کی ہے لیکن پی ایف آئی پر اس پابندی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ کچھ افراد جو جرم کرتے ہیں ان کے اقدامات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی تنظیم پر پابندی لگا دی جائے۔ سُپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی تنظیم کے ساتھ محض تعلق کسی کو مجرم ٹھہرانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ لیکن اس قسم کی سخت پابندی خطرناک ہے کیونکہ یہ ہر اس مسلمان پر پابندی کے مترادف ہے جو اپنی بات کہنا چاہتا ہے۔
اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ 'جس طرح سے بھارت کی انتخابی آمریت فاشزم کے قریب پہنچ رہی ہے، اب بھارت کے کالے قانون UAPA کے تحت ہر مسلمان نوجوان کو پی ایف آئی کے پمفلٹ کے ساتھ گرفتار کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں سے بری ہونے سے قبل مسلمان کئی دہائیاں جیل میں گزار چکے ہیں۔ میں نے UAPA کی مخالفت کی ہے اور ہمیشہ UAPA کے تحت ہونے والی تمام کارروائیوں کی مخالفت کروں گا۔ یہ آزادی کے اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔
ایم آئی ایم صدر نے کہا کہ 'ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کانگریس نے یو اے پی اے کو سخت بنانے کے لیے ترمیم کی تھی اور جب بی جے پی نے اسے مزید سخت بنانے کے لیے قانون میں ترمیم کی تو کانگریس نے اس کی حمایت کی۔ یہ معاملہ صدیق کپن کی ٹائم لائن کی پیروی کرے گا جہاں کسی بھی کارکن یا صحافی کو تصادفی طور پر گرفتار کیا جاتا ہے اور اسے ضمانت حاصل کرنے میں بھی 2 سال لگ جاتے ہیں۔
اسد الدین اویسی نے سخت الفاظ میں کہا کہ 'پی ایف آئی پر پابندی کیسے لگائی گئی جبکہ اجمیر درگاہ بم دھماکوں کے مجرم جس تنظیم سے وابستہ ہیں اس پر ابھی تک کسی طرح کی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ حکومت نے دائیں بازو کی اکثریتی تنظیموں پر پابندی کیوں نہیں لگائی؟