کسی زمانے میں یہ آب گاہیں صاف و شفاف پانی اور ندرو (ایک قسم کی سبزی) کی کاشت کے لیے کافی مشہور ہوا کرتی تھیں۔ سیاح ڈل جھیل سے آنچار جھیل تک انہیں آبی پناگاہوں کے بیچوں بیچ شکارہ میں سیر کیا کرتے تھے۔ لیکن افسوس آج کی تاریخ میں یہ کوڑا کرکٹ اور خود غرض عناصر کے ناجائز قبضے سے خاموشی کی موت مر رہی ہیں۔ جبکہ گندگی اور غلاظت کی وجہ سے یہ آب گاہیں ڈیمنگ سائٹ میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
تاریخی آب گاہوں کی زبوں حالی - ندرو کی کاشت
وادی کشمیر میں قدرتی آبی پناہ گاہوں کا دائرہ دن بدن سکڑتا جا رہا ہے۔ وہیں یہاں کی تاریخی جھیلوں کے آس پاس غیر قانونی قبضے اور آلودگی نے بھی ان آبی پناہ گاہوں کو تشویش ناک حد تک نقصان پہنچایا ہے۔
گھروں سے نکلنے والا سارا گندہ مواد گلی اور خوشحال سر کی ہی نذر کیا جاتا یے۔ وہیں مردہ جانوروں کے ڈالنے سے بھی یہ غلاظت کی آمجگاہ بن چکی ہیں۔ گزشتہ دو ہائیوں سے خوشحال سر اور گلی سر کی صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں رہائشی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
انتظامیہ نے خوشحال سر میں ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے لیے رواں برس فروری میں کاروائی شروع کی تھی۔ لیکن معاملے کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر پھر سے پس پشت ڈال دیا گیا۔ کشمیر ٹائمز کے دفتر کو بند کیے جانے کی مذمت
مقامی لوگوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ لیکس اینڈ واٹر ویز ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور سرینگر میونسپل کارپوریشن نے ہی ان تاریخی آب گاہوں کو تباہ و برباد اور نیست و نابود کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے کیونکہ جو بھی تعمیرات خوشحال سر میں موجود ہیں وہ تعمیراتی ایجنسوں کی پشت پناہی سے ہی بنائے گئے ہیں
ادھر ان آب گاہوں کی صفائی ستھرائی نہ ہونے اور غیر قانونی تعمیرات کھڑا کیے جانے کے متعلق لاؤڈا اور میونسپل کارپوریشن ایک دوسرے پر زمہ داریاں عائد کرتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اگر متعلقہ محکمے اب بھی خواب غفلت سے نہ جاگے تو آنے والے وقت میں نئی نسل ان آبی پناگاہوں کا وجود تاریخی کتابوں میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔