حیدر آباد: دفاعی اور جنگی امورات کے ماہر وکرم جیت سنگھ نے بتایا کہ دہشت گردوں نے جموں و کشمیر میں دراندازی کی حکمت عملی کو اپ گریڈ کیا ہے اور فوج پر حالیہ مہلک حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شورش زدہ علاقے میں زمینی صورتحال حساس ہے اور امکان ہے کہ اس کا رخ عدم استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ پونچھ-راجوری سیکٹر کے ساونی گاؤں میں 21 دسمبر کو سہ پہر 3.45 بجے عسکریت پسندوں نے فوج کی دو گاڑیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا جس میں چار فوجی ہلاک اور تین شدید زخمی ہوئے۔ حملہ آوروں نے ہلاک شدہ فوجیوں کے ہتھیار چھین لئے اور قریبی جنگلات میں فرار ہونے سے پہلے مبینہ طور پر دو لاشوں کو مسخ کر دیا۔ فوج نے حملہ آوروں کا سراغ لگانے کے لیے پورے جنگلاتی علاقے نیز دہشت گردوں کے زیر استعمال سرنگوں کے لیے ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد کے حصوں میں تلاشی کارروائی شروع کی ہے۔
یہ حساس راجوری-پونچھ خطے میں فوج پر سب سے بڑا اور سنگین حملوں میں سے ایک تھا۔ یہ حملہ نہ صرف دن دھاڑے کیا گیا بلکہ حملہ آوروں کے پاس اتنا وقت تھا کہ انہوں نے فوجیوں کی رائفلیں بھی چھین لیں۔ امریکی ساخت کی ایم چار رائفل کے ساتھ تصویریں بھی کھینچیں اور فوجیوں کی لاشیں مسخ بھی کیں۔ یہ تجزیہ دفاعی تجزیہ نگار وکرم جیت سنگھ نے ای ٹی وی بھارت اردو اور جموں و کشمیر کے ایڈیٹر خورشید وانی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال وضح کرتی ہے کہ عسکریت پسندوں کو گھات لگا کرحملے کے بعد فوج کی طرف سے موثر جوابی فائرنگ نہیں ملی،انہوں نے مزید کہا کہ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی اونچی چوٹیوں اور قدرتی غاروں والے وسیع جنگلاتی علاقوں میں دہشت گردوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے فوج کی حکمت عملی کا اندازہ لگا لیا ہے اور وہ مقامی تعاون کی مدد سے مناسب جاسوسی اور سمجھ بوجھ کے ساتھ مہلک حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
وہ (دہشت گرد) دوستوں کے جوڑوں میں کام کرتے ہیں۔ بعض اوقات دو جوڑے گھات لگا کر حملہ کرتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں پونچھ-راجوری اور کوکرناگ/کولگام کی بلندیوں میں فوج پر ہوئے آٹھ حملوں میں سے چھ میں، دہشت گرد اعلیٰ سطح پر حملہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور انہیں جوابی کارروائی میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ وہ پونچھ-راجوری میں ریاستی پولیس پر نہیں بلکہ فوج پر ہی حملہ کرتے ہیں
انہوں نے انتہائی اعلیٰ فوجی افسران کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ان حملہ آوروں میں سے کچھ پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ فوجی تھے یا طالبان کے ساتھ افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف لڑنے کا تجربہ رکھنے والے دہشت گرد تھے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے دراندازی کے متبادل طریقوں کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روایتی راستوں کے علاوہ، دہشت گرد سرنگوں کے ذریعے اندر آ رہے ہیں۔ وہ پنجاب اور نیپال کے راستے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ڈرون کے ذریعے ہتھیاروں کی سپلائی ملتی ہے۔ اس لیے فوج کو دراندازی کے بارے میں اپنی سمجھ پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔
وکرم نے کہا کہ جنوبی کشمیر میں پونچھ-راجوری اور پیر پنچال کے علاقے میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ پاکستان کے جانب سے اصل میں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ 5 اگست 2019 کو جب سابق ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا اور اس کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کر دیا گیا، تو اس مرکزی حکومت کے اقدام کے باوجود جموں و کشمیر ایک "متنازعہ خطہ" بنا ہوا ہے۔