اردو

urdu

ETV Bharat / state

نوجوان شاعر آصف طارق کے ساتھ خصوصی گفتگو

وادی کشمیر کے نوجوان کڑی محنت اور لگن کے ساتھ کھیل کود، تعلیم کے علاوہ مختلف شعبہ جات میں بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ وہیں اگر ادب کی بات کریں تو یہاں کے نوجوان کسی سے کم نہیں۔ کشمیری زبان و ادب کی مشعل روشن رکھ کر نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر آصف طارق بٹ۔

نوجوان شاعر آصف طارق کے ساتھ خصوصی گفتگو
نوجوان شاعر آصف طارق کے ساتھ خصوصی گفتگو

By

Published : Mar 19, 2021, 12:20 PM IST

کشمیر کا ادب کے ساتھ کافی گہرا اور قدیم رشتہ ہے۔ یہاں کے شعرا نے انگریزی، اردو اور فارسی سمیت دیگر زبانوں میں شعر و شاعری کر کے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ تاہم آج کل کے دور میں نہ جانے کیوں کشمیری زبان اس سب میں پیچھے رہ گئی۔

نوجوان شاعر آصف طارق کے ساتھ خصوصی گفتگو

وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر آصف طارق بٹ کشمیری زبان و ادب میں طبع آزمائی کر کے داد تحسین حاصل کر رہے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے آصف نے کہا کہ انہوں نے انگریزی اور دیگر زبانوں کے بر عکس کشمیری زبان کو ہی ترجیح دی۔ ان کے مطابق ان کا منظوم کلام طباعت کے مراحل سے نہیں گزرا۔ تاہم وہ بعض اوقات اپنا چنندہ کلام ویب سائٹس یا سماجی رابطہ گاہوں کے ذریعے منظر عام پر لاتے ہیں۔

انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ کشمیری رسم الخط کو ہی ترجیح دیتے ہیں، تاہم ان کا ماننا ہے کہ سماجی رابطہ گاہوں یا ویب سائٹس پر کشمیری کلام کو شیئر کرتے وقت صرف رومن رسم الخط کے بجائے رومن اور کشمیری، دونوں میں کلام شیئر کیا جائے تاکہ کشمیری زبان و ادب کے ساتھ ساتھ کشمیری رسم الخط کو بھی فروغ مل سکے۔

بٹ اس وقت کشمیری ادب میں آنرس کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم میڈیکل سے ادب میں شفٹ کرنے کا ان کا سفر آسان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’والدین کو میرا میڈیکل سے لٹریچر شفٹ کرنا عجیب محسوس ہوا تھا، بعد ازاں انہوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔‘‘

شعر و شاعری کی طرف راغب ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے بٹ نے کہا کہ گیان پیٹھ اعزاز سے سرفراز کشمیر کے مشہور شاعر رحمان راہیؔ کی غزل ’’زندہء روزنہء باپتھ چھی مران لُلھ، ژء مرکھ نا‘‘ ان کے لیے باعث کشش بنی۔ بٹ نے کہا کہ وجے ملہ کی آواز میں رحمان راہی کی غزل ریڈیو پر سننے کے بعد انہیں کشمیری لٹریچر کا شوق ہوا جس کے بعد انہوں نے دیگر شعراء کا کلام بھی پڑھا اور بالآخر میڈیکل سے شفٹ ہو کر لٹریچر میں جانے کا فیصلہ لیا۔

انگریزی اور اردو کے بجائے کشمیری کو ترجیح دینے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 'ابتدا میں میں نے انگریزی اور اردو میں بھی شاعری کی۔ پھر مجھے محسوس ہوا کہ جتنا وادی میں اردو اور انگریزی کا رجحان ہے کشمیری میں اتنا نہیں۔ بس اسی لیے میں نے کشمیری زبان کو فروغ دینے کے لیے اپنی مادری زبان - کشمیری- میں ہی شاعری کرنے کا فیصلہ کیا۔'

شاعری کے موضوعات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سماجی پہلوؤں، کشمیر کے حالات سمیت کئی موضوعات پر شاعری کرتے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق وہ معروف نقاد و شاعر ظریف احمد ظریف سے اصلاح کرائے بغیر اپنا کلام منظر عام پر نہیں لاتے۔

کافی کم عمر سے کشمیری ادب کے ساتھ جڑے رہنے کے نتیجے میں بٹ نے تقریبا پندرہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ تاہم ان کے مطابق وہ ابھی انہیں شائع نہیں کرانا چاہتے۔

جہاں کشمیری زبان و ادب کے ساتھ یہاں کے نوجوانوں کا تعلق رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ وہیں بٹ جیسے نوجوان نئی پہل کے ذریعے اس زبان کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بٹ کہتے ہیں کہ 'آج کل کے اس جدید دور میں سماجی رابطہ گاہوں اور آن لائن کا بول بالا ہے۔ اگر ہم شعراء ان ویب سائٹوں پر اپنا کلام کشمیری رسم الخط کے ساتھ ساتھ رومن میں پوسٹ کریں اور ساتھ ہی اردو اور انگریزی میں ترجمہ بھی ہو تو ہماری زبان کو کافی بہتر فروغ مل سکتا ہے۔'

ABOUT THE AUTHOR

...view details