سرینگر:کشمیر میں جب بھی فیکشن یا اردو افسانہ نگاری کی بات جائے گی، تو وہ وحشی سعید کا نام لئے بغیر نامکمل ہوگی۔ وحشی سعید ان اردو افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جوکہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی پہنچان رکھتے ہیں۔برصغیر کے اس نامور افسانہ نگار کے ادبی کارناموں اور اردو ادب کے تئیں ان کی خدمات سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے وحشی سیعد کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ 'طالب علمی کے زمانے سے لیکر اب تک میں افسانہ نگاری کی صنف کی طرف ہی مائل رہا اور میں نے ادب کی کسی دوسری صنف میں طبعہ آزمائی نہیں کی کیونکہ اس کی خاص وجہ ہے یہ رہی کہ استادوں نے میری تحریروں کو بطور شاعر نہیں بلکہ ایک افسانہ نگار اچھا پایا۔ایسے میں کالج سے لیکر کشمیر یونیورسٹی تک اساتذہ کی رہنمائی میں افسانے کی صورت میں اپنے اندر کے خیالات اور ارد گرد کے ماحول کو سامنے لاتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہا اگرچہ میں نے ابتداء طور شعر بھی لکھے اور مشاعروں وغیرہ میں بھی شرکت کی، لیکن بعد یہ محسوس ہوا کہ میں شعر و شاعری کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا افسانوں کی جب ہم بات کرتے ہیں، خواہ وہ اردو یا کشمیری زبان کے ہوں ایک رومانوی کیفیت سامنے آجاتی ہے اور اکثر افسانے لکھنے والے رومانیت کو ہی موضوع بناتے ہیں،لیکن میری افسانوی تحریریں رومانیت سے بالکل الگ اور جداگانہ ہیں،کیونکہ عشق و محبت کے کہانیوں سے ہٹ کر میں اپنے اردو گرد کے ماحول اور حالت و واقعات کو اپنے افسانوں کا محور بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
وحشی سیعد نے کہا کہ' میں زندگی کے ان واقعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دیتا ہوں جو کہ ظاہری طور بہت چھوٹے ہوتے ہیں، لیکن وہ بے حد متاثر کُن ہوتے ہیں۔اس لیے میرے تحریر کردہ افسانے دیگر فیکشن نگاروں سے مختلف ہوتے ہیں۔'وحشی سعید کہتے ہیں کہ افسانہ جس بھی زبان میں لکھا جائے،زبان پر مکمل دسترس اور موضوع منفرد ہونا چائیے تب جا کے ایک عمدہ افسانہ وجود میں آسکتا ہے۔ زندگی ہر وقت اور ہر دن ایک نئے موضوع کو جنم دیتی رہتی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ تلاش کرنا پڑے۔ایک اچھے افسانہ نگار کے لیے موضوع ہمیشہ اس کے اردگرد ہی ہوتے ہیں بس پہچان کی ضرورت ہے۔
بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ میں نے اردو لکھنے کا طرز اور طریقہ" ابن صفی" کی ان جاسوسی ناولوں سے سیکھا جو کہ بجپن میں نے پڑھتا تھا،کیونکہ ان کی ناولوں میں نیا پن اور نئی کہانی ہوتی تھیں۔ ایسے نہ صرف ان کی کہانیاں عمدہ تھیں، بلکہ ان کے لکھنے کا انداز میرے نزدیک دیگر قمکاروں سے عمدہ تھا،جس سے میں بڑا متاثر ہوا۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک رول ماڈل کا تعلق ہے تو وہ طالب علمی کے زمانے سے اب تک سعادت حسن منٹو ہی رہا ہے اور اب بھی میں اسی کی تحریری پڑھتا ہوں کیونکہ منٹو جس انداز اور طریقے سے اپنے افسانوں میں زندگی کو پیش کیا، ویسا اب تک کسی بھی فیکشن نگار نے پیش نہیں کیا ہے۔
وحشی سعید کے افسانے اتنے متاثرکن اور جداگانہ ہیں کہ نہ صرف یہاں کے بلکہ ملک کے دیگر ریاستوں کے طالب علموں نے بھی ان کے افسانوں پر پی ایچ ڈی کیا ہے۔روضیہ تبسم ایسی پہلی طالبہ ہے جس نے وحشی سعید کے "سڑک جارہی ہے" پر جموں یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اس کے بعد نہ صرف حیدرآباد یونیورسٹی میں بھی ان کے افسانوں پر تحقیق کیا گیا،بلکہ جگمہن نامی طالب علم نے بھی پنچاب یونیورسٹی میں وحشی سعید کی تحریروں پر تحقیق مکمل کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ایسے میں اب بہار یونیورسٹی میں بھی وحشی سیعد کی فیکشن نگاری پر پی ایچ ڈی کیا جارہا ہے۔