مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر یونین ٹریٹری میں بلدیاتی اداروں کو جائیداد سے متعلق ٹیکس وصولی کے اختیارات دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنوں کو اپنے حدود میں جائیداد پر ٹیکس لگانے کا اختیار ہوگا۔
مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر میں میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل کونسلوں اور میونسپلٹیوں کو جموں و کشمیر میونسپل ایکٹ 2000 اور جموں و کشمیر میونسپل کارپوریشن ایکٹ 2000 میں جموں و کشمیر تنظیم نو قانون (ریاستی قوانین کے واقفیت) کے متعلق حکمنامہ جاری کیا ہے۔
حکمنامہ مجریہ 2020 اور متعدد ترامیم کے ذریعہ تفویض شدہ اختیارات کے تحت خائیداد پر ٹیکس لگانے کا اختیار دیا ہے۔
یہ حکمنامہ دفعہ 370 کی منسوخی کے سلسلے میں جموں و کشمیر میں قوانین کی ترامیم کی ایک کڑی ہے۔
اس سے قبل جموں و کشمیر میں میونسپل حدود میں آنے والے علاقوں میں جائیداد پر کوئی ٹیکس نافذ نہیں ہوتا تھا۔
نیے میونسپل ایکٹ کے تحت جائیداد ٹیکس عائد ہونے پر وادی میں غصہ واضح ہو کہ سنہ 2011 میں نیشنل کانفرنس اور کانگرس کی مخلوط حکومت نے میونسپل ایکٹ میں ترمیم کرکے جائیداد پر ٹیکس لگانے کے متعلق ترمیمی بل اسمبلی سے منظور کرایا تھا۔ تاہم اس پر کافی ہنگامہ اور تنقید بھی ہوئی تھی، جس کے بعد اس وقت کی حکومت نے بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا تھا، تاہم کمیٹی نے اپنی رپورٹ مقررہ وقت پر پیش نہیں کی۔ گزشتہ روز مرکزی سیکریٹری داخلہ جے کمار بھلا کی جانب سے جاری کئے گئے ہدایات کے مطابق جموں و کشمیر کے سابق نافذ شدہ قوانین میں جائیداد ٹیکس کے نفاذ کے بارے میں کوئی دفعات موجود نہیں ہیں۔
وزارت داخلہ نے دفعہ 72 سے 80 تک کو تبدیل کیا اور اب دفعہ 72 میں کہا گیا ہے کہ "جب تک اس ایکٹ یا کسی دوسرے قانون کے تحت رعایت نہیں دی جاتی ہے اس وقت تک میونسپل حدود میں واقع تمام اراضی و عمارتوں یا خالی جگہوں پر جائیداد ٹیکس عائد ہوگا۔'
نئے ایکٹ کےمطابق جائیداد ٹیکس زمین اور عمارت یا خالی زمین پر سالانہ قیمت کا 15 فی صد سے زیادہ نہیں ہوگا۔
دفعہ 270 کے تحت ٹیکس کے لیے جائز زمین اور عمارت یا خالی اراضی پر ٹیکس کسی عمارت کے کل تعمیراتی رقبے یا زمین کے کل رقبے کے ساتھ متعلقہ یونٹ رقبہ کی قیمت کے سالانہ قیمت کے حساب سے وصول کیا جائے گا۔
تاہم حکم نامے کے جاری ہونے کے بعد سیاسی پارٹیوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جموں و کشمیر کے باشندوں کو پریشان کرنے کے لئے کیا گیا۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ جس نے آمدنی حاصل نہ کی ہو اس سے 15 فیصد ٹیکس لینا صحیح نہیں ہے۔