ہم کئی برس سے اپنے والدین کو دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ ہم نے سابق عکسریت پسندوں کے ساتھ شادی کی ہے، نہ کہ کوئی سنگین جرم۔ یا تو بھارت سرکار ہمیں اپنوں سے ملنے کے لئے سفری دستاویزات فراہم کرے یا ہمیں اب مکمل طور پر پاکستان بھیجنے کا بندوبست کرے۔
ان باتوں کا اظہار پیر کے روز سرینگر میں ان پاکستانی خواتین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا جنہوں نے کئی برس قبل پاکستان میں کشمیر کے سابق عسکریت پسندوں نے شادی کی تھی۔
انہوں نے درد بھرے لہجے میں پریس کے سامنے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے ملک پاکستان جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی ہے؟ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ان کا قصور کیا ہے؟
پریس کانفرنس کے دوران ان خاتوں نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا ہے یہ اپنے والدین کو دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں۔ ان میں سے سائرہ جاوید نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پاکستان جانے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنے فوت ہوئے والد کا منھ بھی نہیں دیکھ سکی۔
طیبہ اعجاز نے کہا کہ انہوں نے سرحد پر اپنے والدین کو تقریباً سات برس قبل دیکھا۔ طیبہ نے اس دن کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہیتی تھیں کہ پانی میں چھلانگ مار اس پار کم از کم ایک بار اپنے ماں باپ کو گلے لگا لیں۔