سماجی رابطہ گاہ ٹویٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ عمارت کے مالک (الطاف) اور کرایہ دار (گُل) کو عمارت میں لے گئے اور انہیں دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایسے افراد کو عسکریت پسند کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ وہ عام شہری ہیں جو اس لیے مارے گئے کیونکہ ان کی جان کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔‘‘
عمر عبداللہ نے مزید کہا ’’انہیں عسکریت پسند یا OGWs قرار دے کر لاشوں کو شمالی کشمیر میں زبردستی دفن کرنا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ لاشوں کو لواحقین کے سپرد کیا جانا چاہئے تاکہ ان کی تجہیز و تکفین کی جا سکے، اب صرف یہی ایک منصفانہ اور ہمدردانہ عمل ہے جو ممکن ہے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ روز انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کشمیر زون، وجے کمار نے سرینگر میں پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ حیدرپورہ علاقے میں انکاؤنٹر کے دوران دو عسکریت پسند ہلاک کیے گئے جبکہ تصام میں عسکریت پسندوں کا معاون (OGW) بھی ہلاک ہو گیا جس نے عسکریت پسندوں کو پناہ دی تھی، وہیں مکان مالک ’’کراس فائرنگ‘‘ میں ہلاک ہوئے تھے۔