روایت اور معمول کے برعکس اس بار لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے یا حریت کانفرنس کی جانب سے دی گئی ’’چلو‘‘ کال کے پیش نظر نہیں بلکہ مہلک کوروناوائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کے پیش نظر عوام کی نقل و حمل پر پابندی عائد ہے۔
نوے کی دہائی ہو یا سنہ 2008اور 2010کی عوامی ایجی ٹیشن، 2014کا تباہ کن سیلاب یا دفعہ 370کی منسوخی کے بعد پیدا شدہ صورتحال سرینگر کی جامع مسجد کے علاوہ وادی کے طول و ارض میں اذانیں تقریباً ہر وقت اور ہمیشہ بلند ہوتی رہیں اور مساجد میں نماز پنجگانہ اور جمعہ کا اہتمام پابندی کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔
تاہم آج جمعے کے روز اکثر مساجد کے منبر و مہراب خاموش رہے۔ سرینگر کے قلب لال چوک کے گردو نواح کی مساجد میں جمعے کا اہتمام نہیں کیا گیا تاہم کہیں کہیں اکا دکا مساجد میں ظہر کی نماز ادا کی گئی۔
کوروناوارئس: کشمیر کی مساجد خاموش کیوں سرینگر ہی نہیں وادی کے سبھی اضلاع کا بھی کچھ یہی حال رہا اور انتظامیہ کی جانب سے عوام کو غیر ضروری طور گھروں سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کی مرکز کے زیرانتظام جموں و کشمیر میں اب تک 5482 افراد کو نگرانی میں رکھا گیا ہے جن میں کورونا وائرس کی علامات پائی گئی ہیں۔ نگرانی میں رکھے گئے افراد یا تو بیرون ممالک سے واپس آئے ہیں یا کوروناوائرس سے متاثرہ افراد کے رابطے میں رہے ہیں۔ ان میں 14 افراد کی کوروناوائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، جبکہ گزشتہ روز کشمیر میں کروناوائرس سے ہوئی پہلی ہلاکت کے بعد عوام میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔