حال ہی میں معروف اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے سرینگر نمائندے پیرزادہ عاشق کو پولیس نے ان کی جانب سے لکھی گئی ایک خبر کے تعلق سے پوچھ تاچھ کے لیے بلایا تھا۔ ان پر مقدمہ بھی درج کیا گیا اور الزام تھا کہ انہوں نے ’’ایک جھوٹی خبر لکھی ہے۔‘‘
پولیس کے مطابق شوپیان انکاؤنٹر کے حوالے سے لکھی گئی خبر میں کافی کچھ غلط تھا ’’پیرزادہ کی اس خبر سے عوام میں غلط تاثر اور کئی خدشات مرتب ہو سکتے تھے۔‘‘
پیرزادہ عاشق کے مطابق خبر میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ ’’شوپیان کے ڈپٹی کمشنر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے لیے موجود نہیں تھے۔ میں نے انتظامیہ سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کافی کوشش کی تھی اور پوچھ تاچھ کے دوران بھی پولیس افسران کو وہ میسجز اور کال ریکارڈ دکھائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’صحافیوں سے بات کرنے سے پرہیز کرنا اب انتظامیہ کا معمول بن چکا ہے، جب ہمارے پاس انتظامیہ کا ردعمل نہیں ہوگا تو ہم اپنی خبر میں کیا لکھیں۔‘‘
وہیں دی ہندو اخبار نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ’’عاشق پر مقدمہ درج کرنے سے قبل ان کو جموں وکشمیر انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی وضاحت موصول نہیں ہوئی۔‘‘
وادی کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی صحافی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز سے بیان حاصل کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں تاہم یا جواب دیر سے موصول ہوتا ہے یا کبھی ملتا ہی نہیں اور خبر بنا انتظامیہ کا رد عمل جانے ہی نشر ہو جاتی ہے۔
ان باتوں پر تفصیلاً بات کرتے ہوئے ہندی زبان کے ایک اخبار سے وابستہ نمائندے وسیم نبی نے کہا کہ ’’انتظامیہ اپنی مرضی کی مالک ہے کبھی وہ صحافیوں سے بات کرتی ہے اور کبھی نہیں۔ ہم ان کا بیان اور رد عمل جاننے کے لیے فون پر فون کرتے رہتے ہیں تاہم جواب نہیں دیا جاتا بعض اوقات گِنے چُنے اور پسندیدہ میڈیا اداروں کو ہی اپنا بیان اور رد عمل بھیج دیتے ہیں، جس وجہ سے ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد خبروں کی بہتات کے باوجود خبروں میں کافی کمی آئی، وجہ افسران کی خاموشی۔ جب وہ عوام کے مسائل پر ہم سے بات ہی نہیں کرتے تو ہم رپورٹ کیونکر بنا سکتے ہیں۔‘‘
وسیم نبی نے اپنی ایک رپورٹ بعنوان ’’ہسپتال میں کتنے بیڈ موجود ہیں‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے میں انہیں ایک مہینے سے زیادہ عرصہ لگا۔ انہوں نے کہا ’’متعلقہ حکام سے جب بھی رابطہ کیا تو انہوں نے آن ریکارڈ (On Record) کچھ بھی کہنے سے انکار کیا، صرف ایک افسر سے دوسرے افسر کے دفتر میں چکر کاٹنے پڑے اور حاصل کچھ نہیں، بالآخر ذرائع کا حوالہ دیکر ہی رپورٹ کو شائع کرنا پڑا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’ایسے میں اگر انتظامیہ یہ دعویٰ کرتی ہے کی میری خبر غلط ہے یا میں نے کسی افسر سے بات نہیں کی تو وہ کس کی غلطی ہے۔‘‘
صحافی عمران احمد کا کہنا ہے کہ ’’آج کل کے دور میں افسران سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر عوام کی واہ وائی لوٹنے کے لئے تفصیلات شئیر کرتے ہیں۔ جب ہم ان افسران سے کسی خبر کی تصدیق کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ ’’ابھی ٹویٹ کر دوں گا‘‘۔
احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’’حال ہی میں میں نے ایک اعلیٰ افسر کو کرونا وائرس کی تفصیلات کے تعلق سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’کنسل صاحب ابھی ٹویٹ کر رہے ہوں گے۔ مجھے لگتا ہے کی یا تو یہ افسران جان بوجھ کر صحافیوں سے بات کرنے سے پرہیز کرتے ہیں یا پھر چاہتے ہیں کہ اس مسئلہ پر خبر ہی نہ کی جائے۔‘‘