سرینگر (جموں کشمیر) :جمعرات کو نیشنل پریس ڈے (قومی یوم پریس) منایا گیا، اس ضمن میں صحافتی انجمنوں نے مختلف مقامات پر پریس کی آزادی اور صحافیوں کو درپیش مشکلات پر تقاریب کا انعقاد کیا، تاہم وادی کشمیر میں صحافیوں نے کسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا۔ ایل جی انتظامیہ نے سرینگر میں محکمہ اطلاعات اور رابطہ عامہ کے دفتر میں اس ضمن میں تقریب کا اہتمام کیا تھا تاہم وہ تقریب منسوخ کی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈوڈہ کے دلدوز سڑک حادثے کے باعث اس تقریب کو منسوخ کیا گیا۔
سنہ 1966 میں 16نومبر کو پریس کونسل آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی تھی، اسی نسبت سے ہر برس قومی پریس ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصدر پریس کی آزادی اور ذمہ داری کو باور کرانا ہے۔ جموں کشمیر بالخصوص وادی کشمیر میں پریس کی آزادی کی بات کی جائے تو بیشتر صحافیوں کا کہنا کہ وادی میں صحافت نوے کے ناسازگار صورت حال کے بعد سے عتاب کا شکار رہی ہے، اور 5 اگست 2019 کے بعد صحافت مکمل طور پر متاثر رہی ہے اور کئی صحافیوں کو حکام کے عتاب بھی برداشت کرنا پڑے۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں تین نوجوان صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور فی الوقت وہ جیلوں میں قید ہیں؛ ان میں فہد شاہ اور سجاد گل کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کیا گیا ہے، وہیں دفعہ 370 کی منسوخی سے کچھ عرصہ قبل نوجوان صحافی آصف سلطان کو بھی گرفتار کرکے جیل روانہ کیا گیا۔ صحافی خالد گل کو بھی چند ماہ قبل پولیس نے گرفتار کیا تھا اور چودہ روز کی قید کے بعد انکو رہا کیا گیا۔ صحافی ماجد حیدری کو بھی انتظامہ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل میں قید رکھا ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 35 ایسے صحافی ہیں جن کو انویسٹیگیشن ایجینسیز نے تحقیقات کے لئے پولیس اسٹیشن میں سمن کیا۔ قریباً بارہ صحافیوں کو اگست ماہ میں پاسپورٹ افسر دیوندر سنگھ نے پاسپورٹ سرنڈر کرنے کی ہدایت دی تھی اور اس حکم نامے کی تعمیل کرکے انہوں نے اپنے پاسپورٹ سرنڈر کئے۔ ان صحافیوں کو پولیس کی ’’ایڈورس‘‘ رپورٹ کی وجہ سے پاسپورٹ سرنڈر کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
جیلوں میں کون صحافی ہیں؟
آصف سلطان: آصف سلطان سنہ 2018 سے جیل میں ہے۔ ان کو اگست سنہ 2018 میں ملک مخالف سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون، یو اے پی اے (UAPA)، کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ آصف پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام ہے، تاہم انکے وکیل اور اہل خانہ نے عدالت میں ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ آصف سلطان کو گزشتہ برس اپریل میں عدالت سے ضمانت ملی تھی تاہم انتظامیہ نے ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرکے انہیں سرینگر کے سنٹرل جیل سے جموں کے کوٹ بلوال جیل منتقل کر دیا۔
36 برس کے آصف سلطان یونیورسٹی آف کشمیر سے صحافت میں ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور جس وقت وہ گرفتار کر لئے گئے تھے وہ ایک مقامی انگریز جریدے ’’کشمیر نریٹر‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ آصف سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کی رہنے والے ہیں۔
سجاد گل: نوجوان صحافی سجاد گل ضلع بانڈی پورہ کے رہنے والے ہیں اور ان کو مقامی انتظامیہ نے جنوری سنہ 2022 کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل میں قید کیا گیا۔ انتظامیہ نے سجاد گل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال انگیز مواد شائع کر رہے ہیں جس سے امن و امان میں رخنہ پیدا ہوگا۔ تاہم سجاد گل کے والدین نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ سجاد گل سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر سے صحافت میں ایم اے ڈگری یافتہ صحافی ہیں۔ جس وقت انکو گرفتار کیا گیا تھا وہ ’’دی کشمیر والا‘‘ پوٹل کے ساتھ وابستہ تھے۔ وہ فی الوقت اتر پردیش کے بریلی جیل میں قید ہے۔
فہد شاہ: جوان سالہ صحافی فہد شاہ ’’دی کشمیر والا‘‘ پورٹل کے مدیر اور بانی تھے۔ انکو فروری سنہ 2022 میں جموں کشمیر پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ فہد شاہ پر وادی کے ضلع پلوامہ، شوپیان اور سرینگر کے تین پولیس تھانوں میں مختلف مقدمے درج کئے گئے تھے جن کی وجہ سے وہ گرفتار کئے گئے۔ تاہم ان مقدموں میں انکو عدالت سے ضمانت ملی تھی۔ البتہ اپریل سنہ 2022 میں پولیس کی اسٹیٹ انویسٹیگیشن ایجنسی نے نومبر 2011 میں ’’دی کشمیر والا‘‘ پر ایک مضمون شائع کرنے پر مقدمہ درج کیا تھا، جس کی بنیاد پر فہد شاہ کو گرفتار کیا گیا۔ یہ مضمون کشمیر یونیورسٹی کے ایک اسکالر اعلی فاضلی نے لکھا تھا۔ مذکورہ اسکالر کو اس مضمون کے ذریعے ملک کے خلاف نفرت اور اشتعال پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بعد ازاں فہد شاہ کو بھی اسی معاملے میں گرفتار کیا گیا۔
فہد شاہ کو انتظامیہ نے مارچ سنہ 2022 میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا تاہم انکو یو اے پی اے کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا اور فی الوقت جموں کے کوٹ بلوال جیل میں ہے۔ فہد شاہ سرینگر کے صورہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
عرفان معراج: عرفان معراج سرینگر کے مہجور نگر علاقے کے رہنے والے ہیں اور یونیورسٹی آف کشمیر سے صحافت میں ایم اے ڈگری یافتہ نوجوان ہے۔ انکو نیشنل انویسٹیگیشن ایجینسی نے رواں برس مارچ میں گرفتار کیا تھا۔ این آئی اے نے عرفان معراج پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خرم پرویز کے ساتھ عسکریت پسندی کو فنڈنگ کر رہے تھے۔ خرم پرویز وادی کے معروف انسانی حقوق کارکن تھے اور ’’جموں کشمیر کوئیلیشن آف سول سوسائٹیز‘‘ کے کوآرڈینیٹر تھے۔ خرم پرویز کو سنہ 2022 میں این آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔ عرفان معراج خرم پرویز کے ساتھ ’’جموں کشمیر کوئیلیشن آف سول سوسائٹیز‘‘ میں بطور محقق کام کر چکے تھے۔
ماجد حیدری: ماجد حیدری کو جموں کشمیر پولیس نے رواں ماہ ستمبر میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ وہ مجرمانہ سازش اور بھتہ خوری کے جرم میں ملوث ہیں۔ تاہم عدالت نے انکو ضمانت دی تھی، البتہ جموں کشمیر انتظامیہ نے ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرکے انکو جموں کے کوٹ بلوال جیل میں قید کیا۔ ماجد حیدری سرینگر کے پیر باغ کے رہنے والے ہیں۔ وہ وادی کے سینئر صحافیوں میں سے ایک ہے اور کشمیر کی صورتحال پر ٹی وی چینلز میں بطور مبصر بھی حصہ لیتے تھے۔
مزید پڑھیں:Kashmiri Journalists After Article 370 Abrogation: جانبدار ہوکر پیشہ ورانہ کام کو انجام نہیں دے سکتے ہیں، کشمیری صحافی
حکام کے علاوہ مبینہ طور عسکریت پسندوں کی جانب سے بھی وادی کے صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں اور متعدد صحافیوں کے نام سوشل میڈیا پر شائع کئے جنہوں نے خوف کی وجہ سے صحافت کرنا ہی بند کر دی۔ مقامی روزنامے ’’دی رائزننگ کشمیر‘‘ میں چار سے زائد صحافیوں کے خلاف دھمکی آمیز مواد سوشل میڈیا پر شائع کیا گیا جس کی پاداش میں انہوں نے اس اخبار سے استعفیٰ دیا۔