سرینگر:جموں و کشمیر میں گلیشئر جھیلوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے ان گلیشئرز کے نیچے آنے والی آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (سی ایس ای) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2009 سے لے کر اب تک بھارت، چین اور نیپال میں پچیس گلیشئر جھیلوں اور آبی ذخائر میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو کہ ایک سنگین خطرہ ہے۔ ان گلیشئرز سے جموں و کشمیر، لداخ، آسام، اروناچل پردیش، سکم، بہار اور ہماچل پردیش کو خطرہ لاحق ہے۔Glaciers Melting Impact
سینیئر اسسٹنٹ پروفیسر کوآرڈینیٹر شعبہ جیو انفارمیٹکس کشمیر یونیورسٹی ڈاکٹر عرفان رشید نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہہ ہندو کش، قراقرم ، ہمالیہ اور تیبیتین پلیٹو جس کو تیسرے قطب کے علاقے بھی کہا جاتا ہے ،میں تقریباً 18 ہزار گلیشئر،جھیلیں موجود ہیں۔Dr Irfan Rashid Assistant Professor Dept of Geo informatics Kashmir University
اُن کا کہنا تھا کہ "قابل اعتماد سیٹلائٹ ڈیٹا پر مبنی مشاہدات سے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نئے گلیشئر جھیلوں کی تشکیل اور خطے میں پہلے سے موجود جھیلوں کی توسیع ہوئی ہے۔ گلیشیئر ماڈلنگ کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان گلیشئرز کے بننے سے ان کے آس پاس والی آبادی اور بنیادی ڈھانچے کے لیے خطرہ بڑھ گیا۔"Glacier Lakes Formed in J&K
ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ گلیشیئرز میں ایک سنوٹ ہوتی ہے جس سے پانی نکلتا ہے اور ان پانی کی شکلوں میں ڈالتا ہے جسے پرو گلیشیئل لیکس کہتے ہیں۔ ان جھیلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کے حجم میں اضافہ ہوتا رہے گا کیونکہ جھیلیں اب بھی بن رہی ہیں۔
اُنہوں نے تفصیلات میں کہا کہ "جموں و کشمیر میں 333 گلیشئر جھیلوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے تقریباً 65 گلیشئر ممکنہ طور پر خطرناک ہیں۔اسی طرح بھارتی ہمالیہ میں ممکنہ طور پر خطرناک جھیلوں کے طور پر درجہ بندی کی گئی۔