پیر کے روز سری نگر میں واقع پارٹی کے دفتر میں ممبرشپ ڈرائیو کا آغاز کرتے ہوئے اپنی تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ 'مسئلہ کشمیر صرف بات چیت سے حل ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ سارک سمٹ میں حصہ لینے کے لیے پاکستان جائیں اور وہاں پاکستان سے کشمیر کے معاملے پر بات کریں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میں جب بھی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی دوبارہ بحالی کی بات کرتی ہوں تو مجھے ملک مخالف کہا جاتا ہے۔ سن 2019 کے پانچ اگست کو وادی میں ایک زلزلہ آیا ہے اور وہ ابھی بھی جاری ہے۔ جب بھی کوئی اس حوالے سے بات کرتا ہے تو اس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ اس کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کو غصہ کیوں آتا ہے جب بھی دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی کی مانگ کرتے ہیں۔ ہم نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا پاکستان کے ساتھ نہیں۔ سن 2019 میں آپ کو اکثریت مل گئی اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سب کچھ تباہ و برباد کر دو۔ خصوصی حیثیت ہمیں بھارت کے آئین سے حاصل ہوئی تھی۔ پاکستانی یا چینی آئین سے نہیں۔ ہم خاموش کیوں رہیں۔ پانچ اگست کو ہوئے فیصلے کو ہم قبول نہیں کرتے۔ ہمارے لئے جموں و کشمیر اور لداخ ایک ہے۔'
جموں میں ایک مندر کی تعمیر کے لیے واگزار کی گئی زمین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'آپ نے محض دس روپے کی طرح کے حساب سے جموں میں مندر کے لیے زمین واگزار کی۔ ہم یہ نہیں کہتے کی مندر تعمیر نہیں کیے جانے چاہیے۔ مذہبی عبادت گاہوں کی تعمیر تو لوگ خود کرتے ہیں۔ مرکزی سرکار کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹی، ہاسپٹل جیسے ادارے تعمیر کرائے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'وادی کی صورتحال اس وقت لاہور جیسی ہے۔ مرکزی حکومت کو اتنا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کہ حالات دوبارہ ماموں نہ آئیں۔'