سال کے اس وقت سرینگر میں موجود باغ گُل لالہ رنگ بہ رنگے پھولوں سے سجا ہوا رہتا تھا اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد باغ کی دلکشی کو دیکھنے کے لیے قطار میں لگ جاتے تھے۔
لیکن آج یہاں کوئی نہیں ہے۔
کورونا وائرس کو پھیلنے کے لیے بھارتی حکومت نے اسکول، دفاتر، ٹرانسپورٹ اور صنعتیں بند کر دی ہیں۔
حکومت کی جانب سے نافذ کیے گیے لاک ڈاؤن نے 1.3 ارب آبادی کو گھروں میں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ کشمیر میں سیاحت ایک اہم شعبہ ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بند ہو گیا ہے۔
ڈل جھیل کی سطح پر تیرتے ہوئے ہاوس بوٹ، سیاحوں میں کافی مقبول ہیں تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ بھی ویران نظر آرہے ہیں۔ ماہی گیر اپنا زیادہ تر وقت مچھلی پکڑنے میں گزار رہے ہیں۔
محمد الطاف نامی ماہی گیر کا کہنا ہے کہ 'لاک ڈاؤن نے انہیں بُری طرح متاثر کیا ہے۔ میں اپنے بزرگ والدین، اہلیہ اور بچوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام نہیں کر پا رہا ہوں۔
'ہماری روزی روٹی کا دار و مدار سیاحت پر ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سےہمیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اب صورتحال بد سے بدتر ہوتی جار رہی ہے۔'
لاک ڈاؤن: سیاحت ٹھپ، معشیت تباہی کے دہانے پر قابل ذکر ہے کہ پابندیاں، بندشیں، لاک ڈاؤن اور مواصلاتی قدغنیں کشمیر میں معمول بن چکی ہیں۔
کشمیر میں اس سے قبل 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کئی ماہ تک سخت بندشیں عائد کی گئی تھی جس کی وجہ سے یہاں کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی درجہ حاصل تھا۔ اس فیصلے کے بعد ریاست کا درجہ ختم کرکے اسے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی گئی جس کی وجہ سے کشمیر کی معیشت کو 180 سے 220 ملین ڈالر کا نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا اگر بہت جلد معیشت کو پٹری پر لانے کے اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو جموں و کشمیر کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔
ادھر طارق احمد نامی ہاؤس بوٹ مالک پورا دن اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارتا ہے۔ انہوں نے اپنے ہاؤس بوٹ میں کام کرنے والے ملازمین کی بھی چھٹی کر دی ہے۔
انہوں نے کہا 'میری روزانہ کی کمائی 25 ہزار تھی اور میرے ہاؤس بوٹ میں چھ ملازم کام کر رہے تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے میرا اپنا گزارا مشکل سے ہو پاتا ہے اسلئے میں نے ملازمین کی چھٹی کر دی۔'
واضح رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 24 مارچ کو 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں لاک ڈاؤن میں 3 مئی تک توسیع کی گئی۔ بھارت کی معیشت پہلے ہی ڈگمگا رہی تھی لیکن طویل لاک ڈاؤن کے بعد اس کی حالت مزید ابتر ہو گئی۔