سرینگر:جموں کشمیر میں گردوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور ڈاکٹروں، انفراسٹرکچر کی کمی کے باعث گردوں کے مریض پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ مریضوں کو علاج و معالجہ خاص کر ڈائلسز کے لیے مجبوراً نجی طبی مراکز کا رخ کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ مریضوں کو سرینگر کے سکمز ہسپتال میں ہی ڈائلسز کے حوالہ سے مکمل علاج فراہم کیا جاتا ہے تاہم سکمز، صورہ میں مریضوں کو علاج کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
گردوں کی بڑھتی بیماری کے کیسز کی وجہ سے اب ہر قصبہ میں نجی ڈائلسز سینٹر قائم ہو رہے ہیں جہاں مریضوں کو ہر ماہ ہزاروں روپئے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں جس سے لوگوں کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غریب افراد کے لئے گردے کا علاج کرنا کسی بوجھ سے کم معلوم نہیں ہتا، وہیں متوسط آمدن والے افراد بھی اس بیماری کی وجہ سے، علاج کے لیے، پیسے جمع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
کشمیر کے سب سے بڑے اسپتال سکمر، صورہ میں شعبہ نفرولوجی کی ایک تحقیق کے مطابق جموں و کشمیر کی کل آبادی کے دس فیصد افراد گردے کی بیماری سے جوجھ رہے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق سکمز میں ہر برس 40 ہزار ایسے مریض آتے ہیں جن کو گردوں کی بیماری کے علاج کے لئے یہاں داخل کیا جاتا ہے۔ سکمز رپورٹ کے مطابق بیشتر مریضوں کے گردوں میں پتھری پائی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ غیر معیاری غذا اور ناصاف پانی کا استعمال بتایا جا رہا ہے۔
جہاں وادی کشمیر میں گردے کے عارضہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے وہیں سرکار طبی سہولیات اور ہسپتالوں میں معقول نفرولجسٹ تعینات کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کی اس کوتاہی کا استفادہ نجی شعبہ کو ہو رہا ہے اور اب تقریبا ہر قصبہ میں ڈائلسز مراکز قائم کیے جا رہے ہیں اور ایک کثیر رقم کے عوض مریضوں کی ڈائلسز انجام دی جا رہی ہے۔