کشمیری طلبا نے کہا کہ ایک طرف حکومت کشمیری عوام کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری جانب انہیں اپنوں سے بات کرنے کےلیے کیوں روکا جارہا ہے۔
کشمیری طلبا ذہنی تناؤ کا شکار مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئینی شق 370 کے خاتمے کے بعد وادی میں سخت پابندیاں عائد ہیں اور مواصلاتی نظام کو پوری طرح مسدود کردیا گیا جس کی وجہ سے ملک کی دیگر ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبا اپنے اہلخانہ سے رابطہ کرنے سے محروم ہیں۔ اب مواصلاتی رابطوں کی جزوی بحالی کے بعد بھی ان کی پریشانی کچھ کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
حیدر آباد میں زیر تعلیم کشمیری طلبا نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کے تحفظ کو لےکر تشویش میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لینڈ لائن سروس بحال کرنے کا حکومت کی جانب سے دعویٰ تو کیا جارہا ہے لیکن زمینی حقیقیت کچھ اور ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ’’جن علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ابھی تک لینڈ لائن سروس بحال نہیں کی گئی ہے۔ اگر سرویس بحال کی گئی ہوتی تو ان کی بات گھروالوں سے ہوتی۔‘‘ طلبا نے کہا کہ گزشتہ 20 دنوں سے ان کی اپنے اہلخانہ و رشتہ داروں سے بات نہیں ہوپائی ہے۔
مدثر احمد گوری نامی ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا کہ: ان کا تعلق جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ سے ہیں اور وہ حیدآباد سینٹرل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔وہ گزشتہ 19 دنوں سے اپنے والدین سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن آج تک وہ اپنے والدین سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مدثر احمد نے کہا کہ مجھ جیسے یہاں کئی طلبا موجود ہیں لیکن ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود ہم اپنے اہلخانہ سے رابطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
کمپیوٹر سائنسز کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک اور نوجوان نے کہا کہ انہیں گھر والوں کی بہت یاد آتی ہے جبکہ مواصلاتی رابطے بند ہونے کی وجہ سے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں اور وہ ٹھیک سے پڑھائی کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
رئیس احمد جو ایک پی ایچ ڈی اسکالر ہے نے کہا: میری آخری بار گھر والوں سے 4 اگست کو بات ہوئی تھی اور تب اب تک میں اپنے گھروالوں کی آواز سننے کےلیے ترس رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں عائد پابندیوں کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔
رئیس احمد نے کہا کہ ہم یہاں پر کسی کو نہیں جانتے ہیں اور نہ ہی گھروالوں سے پیسہ منگوا سکتے ہیں، ایسے حالات میں ہماری زندگی دوبھر ہوگئی ہے۔
سکندر وانی نامی ایک اور ریسریچ اسکالر کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے ماں باپ اور بہن کو دیکھے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے جبکہ میری ان سے آخری بات چیت 4 اگست کو ہوئی تھی اور وہ اس وقت کشمیر کے حالات کو لیکر کافی پریشان تھے۔
ریسریچ اسکالر بلال احمد نے کہا کہ پچھلے 20 روز سے عائد بندشوں اور مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے وہ نفسیاتی طور پر متاثر ہیں اور پڑھائی نہیں کر پارہے ہیں۔
واضح رہے کہ وادی میں 20 ویں روز بھی مواصلاتی نظام پر پابندیاں عائد رہیں، جبکہ انٹر نیٹ، براڈ بینڈ اور دیگر مواصلاتی رابطے بھی منقطع ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انتظامیہ اور پولیس عہدیداروں کے ذاتی موبائل فونز کو بحال کردیا گیا ہے۔ جبکہ حکومت کے اعلان کے برخلاف عام شہریوں کے لینڈ لائن فونز ابھی بھی بحال نہیں کئے گئے ہیں۔کئی تھانوں پر لوگ ریاست سے باہر مقیم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ چند منٹ وہ بھی پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں رابطہ کر پارہے ہیں۔