عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں پوری دنیا کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی عام زندگی کی رفتار تھم سی گئی ہے وہیں تمام طرح کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ تعلیمی ادارے بند، تعمیراتی کام کاج ٹھپ اور لوگوں کا روزگار بری طرح متاثر ہوا ہے اور لاک ڈائون نے کھلاڑیوں کے کھیل سرگرمیوں سے دور کر دیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کی غرض سے عائد لاک ڈاؤن کے چلتے کھلاڑیوں کو ہو رہی مشکلات کے بارے میں وادی کے ابھرتے کھلاڑیوں سے اس وقت انکی سرگرمیوں سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی۔
لاک ڈائون: ’مایوس اور پست ہمت ہونے کی ضرورت نہیں‘ کھلاڑیوں کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت (لاک ڈائون کے دوران) اسٹیڈیم، میدان یا رِنگ میں مشق کرنے نہیں جا سکتے تاہم اپنے گھروں میں ہی لگاتار اپنے آپ کو تندرست رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں تاکہ جیسے ہیں لاک ڈائون ختم ہو وہ میچ کے لئے سو فیصد تیار ہوں۔
وادی کشمیر کے جانے مانے روڈ اینڈ ماؤنٹین بائیکنگ سائیکلسٹ عمر نبی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’سائیکلنگ ایک ایسا کھیل ہے جس کی مشق آپ گھر بیٹھ کر نہیں کر سکتے، پریکٹس کے لیے گھر سے باہر جانا ضروری ہے۔ تاہم لاک ڈائون کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں اسی لیے میں نے گھر میں ہی اپنی مشق کے لیے ایک آلہ ایجاد کیا ہے، جس کی مدد سے میں کچھ حد تک خود کو تندرست رکھنے کے میں کامیاب ہو پا رہا ہوں۔‘‘
سرینگر کے مضافاتی علاقے سے تعلق رکھنے والے عمر نبی کا کہنا ہے کہ ’’میں رولز کے سہارے روز صبح شام سائیکل چلاتا ہوں۔ اس سے مجھے کافی مدد مل رہی ہے اور باقی کھلاڑیوں سے بھی گزارش کر رہا ہوں کہ وہ لاک ڈاؤن کا بہانا بنا کر پریکٹس سے دور نہ رہیں۔‘‘
وہیں 17سالہ ادیب احمد وانی بھی عمر نبی کی رائے سے اتفاق رکھتے ہیں۔ سرینگر کے سعدا کدل علاقے کے رہنے والے ادیب احمد آئس سکیٹنگ اور باسکٹ بال میں بھارت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ادیب کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے نہ صرف انہیں بلکہ تمام کھلاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پریکٹس گھر میں پوری طریقے سے نہیں ہوتی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ میچ کے لیے خود کو تیار رہنے کی غرض سے وہ لگاتار گھر پر پریکٹس کرتے رہتے ہیں
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’کرونا وائرس سے احتیاط ہی اس سے بچاؤ ہے۔ اسی لیے سبھی افراد کو گھروں میں ہیں محفوظ ہیں۔‘‘
سری نگر کی رہنے والی ووشو کھلاڑی منزہ غازی جنہوں نے حال ہی میں ماسکو میں طلائی تمغہ اور برونی میں چاندی کا تمغہ حاصل کرکے نہ صرف بھارت کا بلکہ وادی کشمیر کا نام بھی روشن کیا تھا۔
عالمی وبا کورونا وائرس کے چلتے لاک ڈاؤن سے پوری دنیا پریشان ہیں وہیں منزہ کا کہنا ہے کہ ’’اگر کورونا وائرس کو ہرانا ہے تو ہمیں خود کو تندرست رکھنا ضروری ہے۔ ہمیں کسی نہ کسی جسمانی ورزش میں مشغول رہنا چاہیے۔ اس وقت گھروں میں محدود رہنا ضروری ہے اور اتنا ہی ضروری ہے روزانہ پریکٹس اور ورزش کرنا۔‘‘
جموں و کشمیر کی ہونہار سنو سکینگ اور تیراکی چیمپئن فائقہ نثار کا کہنا ہے کہ ’’موجودہ صورتحال میں کھلاڑیوں پر ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ فٹبالر کچھ حد تک اپنے ہنر میں اضافہ کر سکتا ہے تاہم تیراکی کرنے والے، سکینگ کرنے والے، کرکٹرز اور دیگر ٹیم کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے کھلاڑی مشقت کیسے کریں؟‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ان باتوں سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی پست ہمت۔ ہم اپنے کھیل کے لئے باہر جاکر باقی لوگوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے وہیں گھر بیٹھ کر مایوس ہونے سے کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ اس لئے اپنے گھروں میں محدود رہ کر ہی ہمیں کچھ ورزش کرنی چاہیے تاکہ لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے بعد ہمیں ایک بار پھر سے اپنے اپنے کھیلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔‘‘
فائقہ نے رواں سال فروری کے مہینے میں گلمرگ میں منعقد کی گئی کھیلو انڈیا 2020 سرمائی کھیلوں میں الپائن اسکینگ مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔
جموں و کشمیر زنانہ رگبی ٹیم کی کپتان صالحہ یوسف کا ماننا ہے کہ ’’جو کھلاڑی مشق نہیں کرتا وہ کھلاڑی ہی نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی وبا کی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ ہم گھر پر ہی باقاعدگی سے مشق کر سکتے ہیں بس صرف ہمیں تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس بات سے فرق نہیں پڑتا کی آپ کس کھیل سے وابستہ ہیں۔ آپ ہر صورت میں گھر پر مشق کر سکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ویگن آر یا ویڈیو چیٹ کے ذریعہ اپنے تجربے شئیر کرنے کے ساتھ ساتھ صلاح و مشورہ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت میں اپنے گھر والوں کو بھی جسمانی تندرستی کی طرف راغب کر رہی ہوں۔ لاک ڈاؤن کے اس مشکل وقت کو میں خود کے لئے اور اپنے کنبے کے لئے خوشحال وقت بنانے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘‘
اگر حوصلہ بلند ہو اور ہمت و لگن کے ساتھ انسان محنت کرے تو کسی بھی مشکل وقت میں خود کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے لیے بھی مثال قائم کی جا سکتی ہے۔