سرینگر شہر میں واقع ایوان صحافت (کشمیر پریس کلب) Kashmir Press Clubمیں چند روز قبل صحافیوں کی گہما گہمی ہوا کرتی تھی۔ ایک صحافی چاے نوش کرتے ہوئے خبر یا تجزیہ تحریر کر رہا ہوتا وہیں بعض صحافی کسی سیاسی، سماجی یا اتصادی صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کر رہے ہوتے اور جہاں سینئر صحافی جواں سال صحافیوں کی سرپرستی بھی کرتے تھے، آج انتظامیہ نے واپس اپنی تحویل میں لیکر پریس کلب کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی، آخر کیوں؟
پیر کو انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک پریس بیان کے مطابق ’’پریس کلب کی رجسٹریشن گزشتہ برس جولائی 14 کو ختم ہو گئی تھی۔ جس کے بعد کلب کی انتظامیہ نے رجسٹریشن میں تاخیر کی اور اسی درمیان چند صحافیوں نے پریس کلب کے بینر کا استعمال کرتے ہوئے کلب کو ’ٹیک اوور‘ کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم پریس کلب اب ایک تسلیم شدہ ادارہ نہیں ہے۔ ایسے میں پریس کلب کے حوالے سے کسی بھی طرف سے بیانات جاری کرنا غیر قانونی ہے۔ جس وجہ سے امن و امان اور صحافیوں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس لیے پولو ویو میں واقع پریس کلب کی عمارت اور زمین دوبارہ اسٹیٹس ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کر دی گئی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ سخت سیکورٹی حصار کے بیچ ڈرامائی انداز میں ہفتہ کے روز سینئر صحافی سلیم پنڈت نے چند دیگر مقامی صحافیوں کے ہمراہ کشمیر پریس کلب میں داخل ہوکر ’’عبوری انتظامیہ‘‘ کا اعلان Kashmir Press Club Coupکرتے ہوئے خود کو صدر اور دیگر دو صحافیوں کو جنرل سیکریٹری اور خزانچی نامزد کیا تھا۔
ایوان صحافت پر قبضے کے بعد جہاں مقامی و قومی سطح کی کئی صحافتی انجمنوں نے جبری قبضے کی سخت مذمت کی، وہیں پیر کو انتظامیہ نے کشمیر پریس کلب کی الاٹمنٹ کو منسوخ کرتے ہوئے پریس کلب کی عمارت و اراضی Kashmir press Club Allotment Cancelledکو واپس اسٹیٹ محکمہ کے سپرد کر دیا۔
- مزید پڑھیں:Amid Heavy Deployment, ‘Interim Prez’ Took Over KPC: سخت سیکورٹی حصار میں ایوان صحافت پر قبضہ
پیر کے روز مقامی صحافی جب حسب معمول اپنا کام کرنے کی غرض سے سرینگر پریس کلب پہنچے تو اسے مقفل پاکر حیران رہ گئے، پریس کلب کو مقفل کیے جانے اور اسکی الاٹمنٹ منسوخ کیے جانے کے حوالے سے صحافیوں نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی۔
سینئر صحافی اور ڈی ڈبلیو (DW) کے نامہ نگار گوہر گیلانی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ایک انتہائی افسوس ناک واردات ہے، کشمیر پریس کلب پر اس وقت بندوق کی نوک پر جبری قبضہ کیا گیا جب انتظامیہ نے ویک اینڈ لاک ڈائون نافذ کیا تھا۔‘‘