بشیر احمد خان، جمعرات کی صبح سوپور قصبے میں عسکریت پسندوں کی جانب سے نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی ایک پارٹی پر گھات لگائے گئے ایک حملے کے دوران طرفین کے مابین ہوئی گولی باری میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے میں ایک سی آر پی ایف اہلکار ہلاک اور تین دیگر اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
لیکن یہ حملہ اسوقت تنازعے کا باعث بنا جب 65 سالہ بشیر احمد خان کے رشتہ داروں نے الزام عائد کیا کہ انہیں گاڑی سے باہر نکالنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کردیا ہے۔ پولیس اور سی آر پی ایف نے اس الزام کی تردید کی۔
ہلاک شدہ بشیر احمد خان کا بھائی اس واقعے نے اسوقت نیا موڑ لیا جب پولیس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بشیر احمد خان کے تین سالہ نواسے کو آپریشن کے دوران بچالیا۔ بچے کی متعدد تصاویر اور ویڈیو وائرل ہوگئیں جبکہ ان تصاویر کو پولیس نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر بھی مشتہر کیا۔
خان اس کمسن بچے کے ہمراہ اپنی ذاتی کار میں علی الصبح شمالی کشمیر کے ہندوارہ قصبے کی جانب روانہ ہوئے تھے جہاں سے انہیں ایک گھریلو ملازمہ کو سرینگر لانا تھا لیکن سوپور پہنچتے ہی وہ تصادم کے بیچ پھنس گئے جس میں انکی موت واقع ہوئی۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ بعد دوپہر دیگر سینئر پولیس افسران کی معیت میں بشیر احمد خان کے گھر گئے اور انکے لواحقین کے ساتھ تعزیت کی۔
وجے کمار نے بتایا کہ انہوں نے انکی شکایات کو سنا اور انکے اشکالات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ وجے کمار نے کہا کہ ہلاک شدہ شخص کے لواحقین تحقیقات کی مانگ کررہے تھے چنانچہ انہوں نے انہیں یقین دلایا کہ واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے گی۔
وجے کمار نے کہا کہ پولیس لواحقین کو سی سی ٹی وی فوٹیج دکھانے کے لیے بھی تیار ہے اور ہر طرح سے اس معاملے میں تعاون دیا جائے گا۔
اس ملاقات کے بعد ہلاک شدہ بشیر احمد خان کے بھائی نظیر احمد نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہمیں انصاف کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہیے۔ جس نے بھی ان کو مارا ہے انہیں سامنے لایا جائے اور انہیں سزا دی جائے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں'۔
ہلاک شدہ بشیر احمد خان کا بھائی واضح رہے کہ واردات کے دن وجے کمار نے ہلاک شدہ شہری کے لواحقین کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا ہوگا۔
پولیس نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ انکے کسی اہلکار نے کمسن بچے کی تصویریں کھینچیں جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ دراصل قانونی طور کسی بھی ایسے کمسن بچے کی تصاویر شائع کرنا غیر قانونی ہے جس کسی جرم کا عینی شاہد ہو۔
پولیس پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اس و حشتناک واقعے کو اپنی شبیہہ بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا چنانچہ کمسن بچے کو ہلاک شدہ شہری کے سینے پر بٹھا کر تصاویر لی گئیں جنہیں بعد میں وائرل کیا گیا۔ پولیس سے یہ بھی استفسار کیا جارہا ہے کہ انہوں نے ہلاک شدہ شخص کو ہسپتال کیوں نہیں پہنچایا جبکہ نامعلوم شخص نے ہلاکت بعد بھی کئی تصاویر کھینچیں جن میں دہشت زدہ بچے کو استعمال کیا گیا۔
دہشت زدہ بچے کی یہ تصاویر اب کشمیر کی موجودہ حالت کی عکاسی کیلئے استعمال کی جارہی ہیں جبکہ اکثر سیاسی رہنماؤں نے بھی اس پر تبصرے کئے ہیں۔
ان تصاویر کے پس منظرمیں کشمیرمیں علیحدگی پسندوں کے خلاف ٹویٹ کرنے پر حکمران بی جے پی کے قومی ترجمان سمبت پاترا بھی تنازعات کا شکار بنے جبکہ معروف ٹیلیویژن صحافی برکھا دت کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا جنہوں نے اس ہلاکت کے لیے ’دہشت گردوں‘ کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔