5 اگست سے قبل سرینگر کی ڈل جھیل کشمیر آنے والے سیاحوں کے لیے سب سے پسندیدہ جگہ تھی، لیکن 6 ماہ سے زائد یہاں خاموشی کے سائے پھیلتے جا رہے ہیں۔
جھیل میں موجود شکارہ ملکی اور غیر مللی سیلانیوں کی موجودگی سے نہ صرف چہک اٹھتے تھے بلکہ ان میں سوار ڈل کی سیر کرتے ہوئے سیاحوں کے پُر رونق اور دلکش مناظر بھی دیکھنے کو ملتے تھے لیکن افسوس آج یہ شکارہ سیاحوں کی راہ تکتے دکھائی دے رہے ہیں مگر سیاح ندارت۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ شکارہ ملکان دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھے ہوتے ہیں
سیاحوں کی عدم موجودگی کے باعث یہ اپنے اہل وعیال کے لیے دو وقت کی روٹی جٹانے سے بھی اب قاصر ہیں. وہیں انہیں مالی بدحالی اس قدر حاوی ہوگی ہے کہ یہ اب نہ تو اپنے بچوں کی اسکولی فیس ادا کر سکتے رکھتے ہیں اور نہ ہی گھر کی ماہانہ بجلی بل۔
ایک وقت میں اس جھیل ڈل ,نگین جھیل اور جہلم وغیرہ کے آس پاس ہزاروں کی تعداد میں شکارہ موجود تھے تاہم آج کل 4 سو کے قریب ہی اب کچے کچےاس طرح کے شکارہ ڈل اور دیگر جھیلوں میں نظر آرہے ہیں۔ جبکہ ان میں سے بھی اب کئی شکارہ مالکان نے یا تو اس پشتینی کام کو مجبورا خیر بار کہہ کر اپنے شکارہ ہی فروخت کر ڈالے ہیں یا بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کی غرض سے ان شکارہ مالکان نے ریڈی پر سبزی یا پھل بیچنے یا مزدوری کا کام اختار کیا ہے.