اردو

urdu

ETV Bharat / state

کشمیری صحافی ایک بار پھر تشدد کا نشانہ بنے - اسلامیہ کالج میں ہو رہے احتجاج

جہاں ایک طرف جموں و کشمیر میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے میں کافی مشکلات ہو رہی ہیں وہی آئے روز بلاجواز عذاب و عتاب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پولیس نے مبینہ طور پر صحافیوں کی مار پیٹ کی
پولیس نے مبینہ طور پر صحافیوں کی مار پیٹ کی

By

Published : Dec 17, 2019, 11:59 PM IST

منگل کے روز شہر سرینگر میں واقع اسلامیہ کالج میں شہریت ترمیم بل کے خلاف کالج طلباء کی جانب سے کیے گئے احتجاج کے دوران قومی میڈیا اداروں سے منسلک دو مقامی صحافیوں - انیس زرگر اور اذان جاوید - کو پولیس کے بلاجواز غصے کا سامنا کرنا پڑا۔

پولیس نے مبینہ طور پر صحافیوں کی مار پیٹ کی

صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے گئے تھے لیکن ’’اسٹیشن ہاؤس آفیسر راشد خان نے اُن کے ساتھ مار پیٹ کی۔‘‘

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے نیوز کلک سے وابستہ نامہ نگار انیس زرگر نے راشد خان پر ان سے مار پیٹ اور گالی گلوچ کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے پولیس کی اس کارروائی کو چند ہفتے قبل کی ایک خبر کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے رعنا واری علاقے میں مقامی باشندوں کو مبینہ طور پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے سے متعلق انہوں نے ایک خبر رپورٹ کی تھی جس کا خمیازہ انہیں آج بھگتنا پڑا۔ انیس کے مطابق اُس رپورٹ میں عوام نے زیادتی کا ذمہ دار رعناواری پولیس اسٹیشن کے SHO راشد خان کو ٹھہرایا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’میرے ساتھ ’دی پرنٹ‘ کے نامہ نگار اذان جاوید کو بھی پولیس کے قہر کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کا موبائل فون بھی ضبط کر لیا گیا۔‘‘

واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انیس نے کہا کہ ’’ہم اسلامیہ کالج میں ہو رہے احتجاج کو رپورٹ کرنے گئے تھے۔ اور پولیس نے واقعے کی موبائل فون سے عکس بندی کرتے دیکھ اعتراض ظاہر کرنے کے بعد ہمارے شناختی کارڈ طلب کیے۔‘‘

انیس نے دعویٰ کیا کہ انکی مار پیٹ اعلیٰ افسران کے سامنے ہوئی جنہوں نے بقول انیس کے انہیں اس بات سے نہیں روکا، باوجودیکہ ہمارے شناختی کارڈ بھی چیک کیے گئے۔ ای ٹی وی بھارت نے جب راشد خان اور ایس پی ساجد شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس ضمن میں میڈیا سے بات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ وادی کے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے متعلق یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وادی کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ فورسز کی جانب سے صحافیوں کو رپورٹنگ کے وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے، لیکن انتظامیہ کبھی ان کی حفاظت کے تیئں سنجیدہ نہیں رہی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details