ادھر آج وادی میں ریل سروس بحال کر دی گئی ہے، گزشتہ روز سرینگر تا بارہمولہ ٹرین کی ٹرائیل رن کی گئی۔
بتادیں صوبائی کمشنر کشمیر بصیر احمد خان نے متعلقہ محکمہ کو ہدیات جاری کی تھیں کہ دس نومبر کو ریل سروس کی سرینگر تا بارہمولہ ٹرائیل رن کی جائے اور گیارہ نومبر سے سروس کو باقاعدہ اور مرحلہ وار طریقے سے بحال کیا جائے لیکن ٹریک پر برف جمع ہونے کی وجہ سے ٹرائیل رن دس نومبر کے بجائے گیارہ نومبر کو ہی ممکن بن گیا۔
گیارہ نومبر کو جاری ایک سرکاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ نومبر کو سری نگر کے نوگام اسٹیشن سے بارہمولہ تک ریل خدمات شروع ہوں گی۔ ریلیز میں مزید کہا گیا تھا کہ 16 نومبر کو سرینگر سے اننت ناگ تک آزمائشی طور ریل خدمات چلائی جائیں گی جبکہ 17 نومبر تک بانہال تک ریل سروس چلائی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے 5 اگست کو اٹھائے گئے اقدامات، جن کے تحت جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کئے گئے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام والے علاقے بنایا گیا، کے بعد سے وادی کشمیر میں معمول کی زندگی معطل ہے۔ ہر طرح کی انٹرنیٹ خدمات منقطع ہیں۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان کشمیر میں فون اور انٹرنیٹ خدمات کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتا ہے۔
وادی میں اگرچہ مواصلاتی خدمات پر عائد پابندیوں کو بتدریج ہٹایا جارہا ہے لیکن انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز ہنوز معطل ہیں جس کے باعث مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں اور طلبا کو متنوع مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ٹھٹھرتی سردی میں اپنے دفتروں کے بجائے محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم میڈیا سینٹر میں کام انجام دینا پڑرہا ہے جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان اور انٹرنیٹ کی غیر تسلی بخش سہولیت صحافیوں کے لئے سوہان روح بن گیا ہے۔
طلبا کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز کی مسلسل معطلی کے باعث وہ اسکالر شپ فارم، داخلہ فارم جمع نہیں کر پارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے این آئی سی سینٹروں کا قیام بھی عبث مشق ہی ثابت ہورہی ہے۔
مسلسل 100 ویں دن بھی غیر اعلانیہ ہڑتال اس دوران جہاں جموں صوبے میں بابری مسجد - رام مندر معاملے پر عدالت اعظمیٰ کے فیصلے کے پیش نظر دفعہ 144 کے تحت عائد پابندیاں اتوار کو ہٹائی گئیں وہیں وادی کشمیر میں یہ پابندیاں ابھی جاری رکھی گئی ہیں۔ صوبائی کمشنر جموں سنجیو ورما نے اتوار کو صوبے سے دفعہ 144 ہٹانے کا اعلان کیا۔
دریں اثنا شہر سری نگر کے جملہ علاقہ جات بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں پیر کے روز بھی ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر ہی رہے تاہم صبح کے وقت بازار کھل گئے جو بعد میں بارہ بجنے سے قبل بند ہوگئے، گلی کوچوں کے دکان دن بھر ادھ کھلے رہے، سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی آمد ورفت جاری رہی۔
عینی شاہدین کے مطابق شہر کے تمام علاقوں میں چھاپڑی فروش صبح سے شام تک سڑکوں پر ڈیرا زن رہے اور مختلف اشیائے ضروریہ بالخصوص گرم ملبوسات اور جوتوں کی فروخت میں مصروف رہے۔
وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں بھی پیر کے روز بھی معمولات زندگی متاثر رہے، بازار دن میں بند رہے تاہم سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل جاری رہی، سومو گاڑیوں کی اکا دکا نقل وحمل بھی دیکھی گئی۔
عینی شاہدین کے مطابق بعض ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں دن کے ایک بجے سے ہی بازار کھلنے لگے اور شام تک بازار کھل گئے جس دوران لوگوں کا کافی رش دیکھا گیا۔
وادی کے سرکاری دفاتر و بنکوں میں معمول کا کام کاج بحال ہورہا ہے، تعلیمی اداروں میں اگرچہ پانچ اگست سے درس و تدریس کا عمل نہ ہوسکا تاہم امتحانات شروع ہونے تعلیمی اداروں میں طلبا کی چہل پہل بڑھ گئی ہے۔ بتادیں کہ سٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات 29 اور 30 اکتوبر سے بالترتیب شروع ہوئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وادی کے بیشتر مین اسٹریم رہنما مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر مسلسل بند ہیں جبکہ اُن کے فرزند اور سابق عمرعبداللہ ہری نواسن میں ایام اسیری کاٹ رہے ہیں اور پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی ہنوز جیل میں ہی ہیں۔ مزاحمتی رہنماؤں بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔