جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس ونود چٹرجی پر مشتمل ہائی کورٹ کے ڈویژنل بنچ نے خیال ظاہر کیا کہ ایڈوکیٹ جنرل کے مطابق ایف آئی آر میں درج قیدی کے خلاف درج مبینہ سرگرمیاں اس نوعیت کی نہیں ہیں کہ اگر ایک بار سرزد ہوں تو اس سے ماضی کی غلطی سمجھا جائے۔
کورٹ نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل نے مزید کہا ہے کہ ایف آئی آر اور حراست کی وجوہات قیدی کے علاحدگی پسند نظریہ سے متعلق ہے جس کی انہوں نے دہائیوں سے پرداخت کی ہے۔
کورٹ نے مزید مشاہدہ کیا کہ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا ہے کہ قیدی نے جس نظریہ کی پرداخت کی ہے کو اسے وقت تک محدو د نہیں سمجھا جاسکتا نہ اسے گئے وقتوں کا خیال یا تازہ نظریہ کہہ سکتے ہیں۔ ایسا تب تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ متعلقہ شخص اپنے برتاﺅ اور اظہار سے اس بات کا اعلان نہ کرے کہ اُس نے متعلقہ نظریے کو خیر باد کہا ہے۔