کوروناوائرس کے خطرات اور خدشات کے پیش نظر مساجد میں اجتماعی عبادات پر پابندی عائد ہے۔ مساجد میں دو سے تین افراد نماز پنجگانہ ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف فلاحی اداروں سے وابستہ افراد صدقات اور خیرات جمع کرنے سے قاصر ہیں۔
فلاحی اداروں پر لاک ڈاؤن کی ضرب وہیں دوسری جانب جو فلاحی ادارے ایک جگہ سے دوسری جگہ گاڑیوں کے ذریعے عام اور صاحب ثروت لوگوں سے لاکھوں میں نقدی جمع کرتے تھے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔
فلاحی اداروں پر لاک ڈاؤن کی ضرب جموں و کشمر یتیم ٹرسٹ کے ایک ذمہ دار نے اس صورتحال کے بارے میں ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'موجودہ صورتحال میں اگرچہ صاحب ثروت لوگ از خود ادارے تک پہنچ کر یا ادارے کے بینک اکاونٹ میں رقومات جمع کر کے مدد نہیں کریں گے تو مستقبل قریب میں یتیم بچیوں اور بچوں کے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کے قیام وطعام کے اخراجات پر بھی خاصا اثر دیکھنے کو ملے گا۔ وہیں سینکڑوں بیواؤں کی ماہانہ امداد پر بھی برا اثر پڑسکتا ہے جن کا خیال ادارہ رکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلاحی اداروں کی مزید ذمہ داری بڑھ رہی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیِں۔ مدد کرنے والے افراد اب مدد لینے والے بن گئے ہیں۔ بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ درجنوں کنبوں کو دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہوپارہی ہے۔
انہوں نے آسودہ حال لوگوں سے اپیل کی کہ وہ صورتحال کی نزاکت کو مدنطر رکھتے ہوئے مدد کے لیے ازخود سامنے آئے تاکہ ان مقدس ایام اور نازک وقت میں کسی کے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو پائے۔
قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے پر آشوب دور اور مسلح شورش کے دوران جہاں یتیموں اور بیواؤں کی ایک کثیر تعداد دیکھنے کو مل رہی ہے وہیں غرباء، مساکین، ناداروں اور مفلوک الحال لوگوں کی بھی ہمارے یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔
گزشتہ دو ماہ کے عرصے کے دوران کوروناووائرس کی وبا کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن سے ان بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے جو دن میں کما کر شام کے لیے اپنے اہل عیال کے لیے روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔