جموں و کشمیر حکومت نے پیپلز کانفرنس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر سجاد لون کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ برس مرکز کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا تھا اور وہ چھ ماہ تک ایم ایل اے ہاسٹل میں بند تھے۔ لون کو بعدازاں فروری میں چرچ لین میں واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
سجاد لون نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ سرکاری طور پر اب آزاد ہیں۔
سجاد لون نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا 'بالآخر میری نظر بندی کو ایک سال مکمل ہونے سے 5 روز قبل مجھے رہا کیا جا رہا ہے۔ مجھے سرکاری طور پر اطلاع دی گئی ہے کہ میں اب آزاد ہوں۔ اس دوران بہت کچھ بدلا ہے۔ جیل میرے لئے کوئی نیا تجربہ نہیں تھا۔ پہلے جسمانی اذیتوں کا سامنا تھا لیکن یہ نفسیاتی طور پر تھکا دینے والا تھا۔ اُمید ہے کہ جلد ہی بہت کچھ شیئر کروں گا۔'
سجاد لون نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ اس حوالے سے مزید تفصیلات کو منظر عام پر لائیں گے۔
سجاد لون کو 5 فروری کو حراست سے رہا کیا گیا تھا لیکن انہیں نظربند کر دیا گیا تھا۔
ان کی رہائی کا اعلان تو کیا گیا تاہم میڈیا کو ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کی رہائش راقع چرچ لین میں سیکیورٹی سخت کی گئی ہے اور میڈیا کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
اس سے قبل جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو تقریباً آٹھ ماہ کی حراست کے بعد مارچ میں رہا کر دیا گیا۔ اُنہیں پچھلے سال اگست میں احتیاطی تحویل کے تحت حراست میں رکھا گیا تھا اور بعد میں اُن پر پانچ فروری کو پبلک سیفٹی قانون لگایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن کا صدر کو خط لکھ کر محبوبہ مفتی کی رہائی کا مطالبہ
پی ایس اے کے تحت الزامات واپس لئے جانے کے بعد اُن کی رہائی کا حکم جاری کر دیا گیا تھا۔ ان کی رہائی ان کے والد اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائی کے دو ہفتے بعد ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:فاروق عبداللہ کے بعد محبوبہ مفتی کو رہا کرنے کا مطالبہ
قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر کے قدآور مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں میں محبوبہ مفتی ہنوز قید میں ہیں۔
واضح رہے کہ مئی میں مفتی پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ میں تین ماہ کی توسیع کی گئی تھی جس کے بعد اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اُن کی بیٹی التجا مفتی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہا تھا کہ 'میں انتظامیہ کے اس فیصلے سے بالکل بھی حیران نہیں ہوں۔ دفعہ 370 کے غیر قانونی طور خاتمے کے بعد حق کی باتوں پر پابندی عائد کرنا اب معمول بن گیا ہے۔'