بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960ء میں طے پائے گئے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس آبی معاہدہ)، جس میں دونوں ملکوں نے پانی کی منصفانہ تقسیم کاری کو تسلیم کیا ہے، سے متعلق قائم کمیشن مذاکرات کرنے والا ہے۔ اس ضمن میں منگل کو پاکستانی وفد نئی دلی پہنچ رہا ہے، جو جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر تعمیر شدہ ہائیڈرو پروجیکٹ جیسے متنازعہ امور پر اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کرے گا۔
پچھلی بار اس کمیشن نے 2018ء میں لاہور میں بات چیت کی تھی، حالانکہ اس طرح کی میٹنگ کا انعقاد سال میں ایک بار لازمی ہے۔ تاہم دفعہ 370 کے کالعدم کئے جانے اور اس کے بعد لائن آف کنٹرول پر رونما ہوئے پُر تشدد واقعات کی وجہ سے ہند و پاک کے درمیان جاری تناؤ بڑھ گیا اور کمیشن کی میٹنگ نہیں ہو پائی۔ بظاہر پس پردہ ڈپلومیسی کی کوششوں کے نتیجے میں برف پگل گئی ہے اور دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آ گئے ہیں۔ ان ہی کوششوں کے نتیجے میں ایک ماہ قبل دونوں ممالک نے جنگ بندی معاہدے کی تجدید بھی کی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ جو بھارت اور پاکستان کے دمیان 1960ء کو ہوا ہے، میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خطوں میں آنے والے پانی کی منصفانہ تقسیم پر پیدا شدہ تنازعے اور اس طرح کے دیگر تنازعات پر بھی بات چیت متوقع ہے۔ اس معاہدے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان 1948ء کا سٹینڈ سِٹل معاہدہ نافذ تھا اور اسی کی رو سے دونوں منقسم اقوام کے درمیان پانی کی تقسیم کاری ہورہی تھی۔
سندھ طاس معاہدے کے دائرہ نفاذ میں چھ دریا اندس، جہلم، چناب، روی، ستلج اور بیاس آتے ہیں۔ معاہدے کی رو سے پاکستان کو مغربی دریاوں جہلم چناب اور اندس، جو بھارت سے برآمد ہوتے ہوئے پاکستان میں بہہ جاتے ہیں، پر مکمل حق ہے اور بھارت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ڈیموں کی تعمیر کرکے پاکستان کو پانی سے محروم کرے۔
معاہدے کی رو سے بھارت کو باقی ماندہ دریاوں روی، بیاس اور ستلج کے پانی کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگرچہ اندس تبت سے برآمد ہوتا ہے لیکن بیجنگ کو اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ ورلڈ بینک نے بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئے ان معاہدوں پر دستخظ کئے ہیں۔ ورلڈ بینک کا کردار ایک ثالث کا ہے اور وہ کسی بھی ایسے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا، جس میں معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ دراصل یہ ورلڈ بینک ہی تھا، جس نے دونوں ملکوں کے درمیان اس معاہدے کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
دریائے اندس، چناب اور جہلم وہ تین اہم دریا ہیں جو پاکستان کی معیشت کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس کے لئے شاہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی زرعی معیشت کا انحصار ان ہی تین دریاوں پر ہے۔ چناب اور جہلم جموں و کشمیر سے ہوکر گزرتے ہیں اور جنگ بندی لائن، جسے لائن آف کنٹرول کے نام سے جانا جاتا ہے، سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی توثیق ہوئی ہے، لائن آف کنٹرول پر سکوت ہے۔
پاکستان کے پرمنٹ کمیشن، کی سربراہی سید مہر علی شاہ کررہے ہیں اور مسٹر پی کے سیکسینہ اُن کے بھارتی ہم منصب ہیں۔ دونوں عہدیدار موسمیات، آبپاشی اور دیگر متعلقہ محکموں کے ماہرین کی ٹیمز کو ساتھ لیکر مذاکرات کریں گے اور اس بات چیت کا محور بغلیار اور پکل ڈول ہائیڈرو پروجیکٹ جیسے متنازعہ امور ہونگے۔ یہ دونوں ہائیڈرو پروجیکٹس جموں خطے میں دریائے چناب پر دو ملحقہ اضلاع ڈوڈہ اور کشتواڑ میں تعمیر کئے گئے ہیں۔