شاہ فیصل نے گزشتہ برس بیوروکریسی سے استعفی دے دیا تھا اور اپنی سیاسی جماعت جموں و کشمیر پیپلز مئوومنٹ کی بنیاد ڈالکر 'ہوا بدلنےـ ــ' کا نعرہ دیا تھا۔ لیکن گزشتہ برس پانچ اگست کو بی جے پی حکومت نے دفعہ 370 کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹرز میں تبدیل کیا۔ دیگر سیاسی لیڈروں کی طرح شاہ فیصل کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور 11 مہینوں بعد انہیں رہائی نصیب ہوئی۔
تاہم رواں ماہ کی 11 تاریخ کو شاہ فیصل نے سیاست سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا، اور امکان ہے کہ وہ واپس بیوروکریسی میں شامل ہونے والے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو کے دوران شاہ فیصل کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کے بعد بدلتے سیاسی منظر نامے میں انہیں محسوس ہوا کہ وہ اس نئے سیاسی نظام میں وہ کوئی مئوثر کردار ادا نہیں کر سکتے ہیں جس کے سبب انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کرنے کا فیصلہ کیا۔
انٹرویو:
فرحت: ڈیڑھ برس سیاست میں رہنے کے بعد آپ کو کس چیز نے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کیا؟
شاہ فیصل: میں نے ایک بر س کے دوران اس فیصلے پر بہت غووفکر کیا، وقت بدل گیا ہے۔ پانچ اگست کے بعد صورتحال بہت تبدیل ہوگئی ہے جس کے بعد میں نے یہی ٹھیک سمجھا کہ مجھے ان چیزوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہئے۔
فرحت: کیا آپ کو لگ رہا ہے کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر میں الیکٹورل سیاست کو دھچکا لگا ہے جس کی وجہ سے کشمیر مسئلے پر مبنی سیاست کا کوئی سکوپ نہیں رہ گیا ہے جس نے آپ کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کردیا؟
شاہ فیصل: نہیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ الیکٹورل سیاست یہاں ہمیشہ بامقصد رہے گی۔ یہ جمہوریت ہے جس کے لحاظ سے یہاں بالآخر لوگ ہی حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن مجھے لگا کہ پانچ اگست کے بعد بدلتے سیاسی منظرنامے میں میں کوئی مئوثر رول ادا نہیں کر سکوں گا جس کے سبب میں نے سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا ہے۔
فرحت: آئی اے ایس ہو یا سیاست کئی نوجوانوں کو آپ میں ایک امید کی کرن نظر آئی۔ کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ آپ کے فیصلوں سے وہ دل برداشتہ ہوئے ہوں گے؟