سرینگر (جموں و کشمیر):اردو زبان کے معروف شاعر راحت اندوری کے کلام ’’شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم، آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے‘‘ سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کشمیری خواتین - جنہوں نے معاشرے میں صنف نازک کے تئیں کمزور ہونے کی روایتی سوچ کو غلط ثابت کیا - نے اپنی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات ای ٹی وی بھارت کے ساتھ شیئر کئے۔ سرینگر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی چار خواتین - صبا ریشی، ڈاکٹر عظمٰی فاضلی، ہینان خان اور مہرین شہداد - نے حال ہی میں ’’آٹو ایکس ریسنگ‘‘ میں حصہ لیکر وادی کی خواتین کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔
کار ریسنگ کے اس مقابلے میں شرکت کرنے تک کا یہ سفر اِن با ہمت کشمیری خواتین کے لیے آسان نہ تھا، تاہم طعن و تشنیع انہیں اپنے خوابوں کو پورا کرنے میں حائل نہ ہوئے۔ سرینگر کے پیر باغ علاقے کی رہنے والی صبا ریشی، جو پیشہ سے ایک ڈیجیٹل بنکر ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’گاڑی چلانے کا شوق مجھے بچپن سے تھا اور میں نے اپنے چھوٹے بھائی سے سیکھی، تاہم میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی ایک کار ریس میں حصہ لوں گی، کیونکہ یہاں ویسے مواقع اور وسائل نہ تھے۔‘‘
صبا کا کہنا ہے کہ ’’خاتون ڈرائیور کو دیکھ کر اکثر و بیشتر لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں، لیکن میں کبھی گھبرائی نہیں، لوگوں کا مذاق اڑانا میرے راستے میں کبھی حائل نہ ہوا۔‘‘ ڈرائیونگ کے اپنے شوق اور کام کے بارے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے صبا نے کہا: ’’ازدواجی زندگی خاص کر بچوں کا خیال رکھنے اور اپنے پروفیشنل کیرئر کے باوجود اپنے شوق کے لیے وقت نکالنے سے جو خوشی ملتی ہے وہ لفظوں میں بیاں نہیں کی جا سکتی۔‘‘
سرینگر کے شیوپورہ علاقے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عظمیٰ فاضلی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتےہوئے کہا: ’’آج کے دور میں ڈرائیونگ ایک ضرورت بن چکی ہے اور میں نے اپنی والدی کی نگرانی میں ڈرائیونگ سیکھی۔‘‘ ریسنگ مقابلہ میں شرکت کے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے فاضلی نے کہا: ’’عام طور پر خواتین کو کمزور ڈرائیور تصورت کیا جاتا ہے تاہم معاشرے میں یہ سوچ اب تبدیل ہو رہی ہے۔ کشمیر میں کار ریسنگ مقابلے سے کافی خواتین متاثر ہوئی ہیں۔ میں نے بھی اس مقابلے میں شرکت کی، اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔‘‘