سرینگر:جموں و کشمیر کےچیف سکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا کی سربراہی میں منعقدہ میٹنگ میں جموں وکشمیر کے خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے غور وخوص کیا گیا،تاکہ وہ بھی معاشرے کا لازمی حصہ بن سکے اور انہیں بھی تمام شہری حقوق حاصل ہو پائے۔اس موقع پر چیف سیکریٹری نے کمیونٹی کے نمائندوں کی طرف سے پیش کیے گئے مطالبات کو تحمل سے سنا اور انہیں بتایا کہ انتظامیہ خواجہ سراؤں کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
ڈاکٹر مہتا نے متعلقہ محکموں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے عملے کو ایسے افراد کی خصوصی ضروریات کے تئیں حساس بنائیں تاکہ خواجہ سرا بھی تمام خدمات آسانی سے حاصل کر سکیں۔ متعلقین کو مشورہ دیا کہ وہ روزگار،سیلف ایمپلائمنٹ، صحت اور تعلیم وغیرہ کے میدان عام آبادی کی طرح خواجہ سراؤں کو فوائد پہنچانے کے لئے کام کریں تاکہ تیسری صنف سے ساتھ ہورہے امتازی سلوک کو ختم کیا جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ سرا برادری کے ہر خواہش مند کو آگے آنے اور فلاحی اقدامات سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی جانی چاہئے۔وہیں ایسے افراد کی فہرست تیار کی جائے جو مختلف کاروباری ادارے شروع کرنے کے خواہشمند ہوں تاکہ یہ معاشرے میں بہتر زندگی گزار سکے۔ میٹنگ میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، پرنسپل سیکرٹری خزانہ؛ کمشنر سیکرٹری سماجی بہبود؛ سیکرٹری، صحت اور دیگر متعلقہ افسران کے علاوہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ خواجہ سراؤں کےحقوق سے متعلق مفاد عامہ کی عرضی کے جواب میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے مرکزی زیر انتظام علاقے جموں وکشمیر اور لداخ کو مختلف ہدایات کی تعمیل سے متعلق ایک اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔
Transgender Community in Kashmir حکومت خواجہ سراؤں کی فلاح وبہود کی وعدہ بند، چیف سیکریٹری
2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں وکشمیر میں میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 بتائی جارہی ہے لیکن آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ 2014 میں عدالت عظمی نے خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے طور پر درجہ ہے۔
مزید پڑھیں:Transgender Community in Kashmir کشمیر میں خواجہ سرا طبقہ حکومتی سطح پر نظر انداز کیوں؟
خیال رہے کہ رواں برس کے مئی مہینے میں ایک عرضی پر سمات کرتے ہوئے ہائی کورٹ آف جموں وکشمیر اور لداخ نے دونوں خطوں کی انتظامیہ سے کہا کہ وہ تازہ ہدایات کی تعمیل کے بارے میں رپورٹ فراہم کریں ۔جس سے عدالت مناسب احکامات جاری کرسکے۔عرضی میں کہا ہے کہ کشمیر میں خواجہ سراؤں کی حالت بے حد ابتر ہے معاشرے میں اب بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کو زندگی کے ہر موڑ پر نا انصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چائیے وہ ملازمت ہو یا قانونی شناخت،معیاری زندگی ہو یا تعلیم سمیت دیگر سماجی معمالات ہو۔وہیں ان میں اکثر اپنے ہی والدین،رشتہ داروں اور دیگر افراد کے ہاتھوں جسمانی اور زبانی اور بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں ِواضح رہے کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں وکشمیر میں میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 بتائی جارہی ہے لیکن آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔