اردو

urdu

ETV Bharat / state

اکیس جنوری 1990: جب گاؤ کدل میں لاشیں بکھر گئیں

اکیس جنوری 1990 کو سرینگر کے گاؤ کدل علاقے میں پیش آئے سانحہ کی کربناک یادیں اب بھی تازہ ہیں اور آج بھی متاثرین کو پریشان کرتی ہیں۔

اکیس جنوری 1990: جب گاؤ کدل میں لاشیں بکھر گئیں
اکیس جنوری 1990: جب گاؤ کدل میں لاشیں بکھر گئیں

By

Published : Jan 21, 2021, 5:41 PM IST

اکتیس سال قبل آج ہی کے دن یعنی 21 جنوری کو سرینگر کے گاؤ کدل علاقے میں 'قتل عام' کے واقعے میں 51 عام شہری ہلاک کر دئے گئے۔ اس سانحے میں تقریباً 250 شہری بھی زخمی ہوگئے تھے۔

اکیس جنوری 1990: جب گاؤ کدل میں لاشیں بکھر گئیں

مقامی لوگوں کے مطابق '21 جنوری 1990 کی صبح سرینگر شہر میں یہ خبریں گشت کرنے لگیں کہ چوٹہ بازار علاقے میں شبانہ چھاپوں کے دوران مبینہ طور پر خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ خبر پھیلتے ہی ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، ان میں راجباغ، اخراج پورہ اور ریڈیو کالونی کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد شامل تھی۔'

اس سانحہ کی کربناک یادیں اب بھی تازہ ہیں اور ان کے مناظر اب بھی ان کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔

عینی شاہد غلام علی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا ' اس وقت جگموہن یہاں کے گورنر تھے اور لوگوں کو مارنے کی ایک منصوبہ بند سازش تھی'

انہوں نے کہا 'یہ واقعہ طوفان کے مترادف تھا اور تین بجے تک حالات ایسے بنے کہ لوگ ایک دوسرے سے نہیں مل سکے'

اگرچہ سرکاری اعداد و شمار نے ہلاکتوں کی تعداد 21 بتائی ہے، لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس قتل عام میں 51 افراد ہلاک ہوئے۔

ڈل اور وولر جھیل سے کیوں ہورہی ہیں مچھلیاں غائب؟

انٹرنیشنل فورم فار جسٹس اور ہیومن رائٹس جموں کشمیر کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں اس بات کاذکر کیا گیا ہے کہ مذکورہ کیس کے سلسلے میں اگرچہ ایک ایف آئی آر زیر نمبر 3/1990 درج کی گئی تھی، تاہم اس کیس میں کسی قسم کی کوئی بھی تحقیقات نہیں ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر میں 22 افراد کی ہلاکت کا اعتراف کیا گیا ہے جبکہ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ اس سانحہ میں 50 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

غلام علی نے کہا 'جلوس کی صورت میں چوٹہ بازار کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جب یہ مظاہرین گاؤ کدل پر پہنچ گئے تو وہاں موجود نیم فوجی دستوں نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جس کے نتیجے میں 50 سے زائد نہتے عام شہری مارے گئے۔'

غلام علی نے بتایا کہ 'اس کے بعد اندھا دھند گولیاں چلیں اور دیکھتے ہی قیامت کا سا سماں بندھ گیا۔'

مقامی لوگوں کے مطابق اس قتل عام میں ملوث اہلکاروں میں سے کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں تاحال کئی کمیشن بٹھائے گئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details