گزشتہ برس پانچ اگست سے زیر حراست نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کی رہائی کے لئے رکن پارلیمان فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ نے آج جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا رخ کیا۔
پارٹی کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق "نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ اور نائب صدر عمر عبداللہ نے عدالت عالیہ میں آج پارٹی کے 16 رہنماؤں کی رہائی کے لیے عرضی دائر کی ہے۔ انہوں نے عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ پانچ اگست سے پارٹی کے رہنماؤں کو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے قید رکھا گیا ہے۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "دونوں رہنماؤں نے سینئر وکیل شارق ریاض کی جانب سے الگ الگ عرضی دائر کی ہے تاہم مطالبہ ایک ہی ہے۔ جہاں فاروق عبداللہ نے علی محمد ساگر، عبد الرحیم راتھر، ناصر اسلم وانی، آغا سید محمود، محمد خلیل بند، عرفان احمد شاہ اور شمیمہ فردوس کی رہائی کے لیے عرضی دائر کی ہے۔ وہیں عمر عبداللہ نے محمد شفیع اوڑی، آغا سید روح اللہ مہدی، چودھری محمد رمضان، مبارک گل، ڈاکٹر بشیر ویری، عبدالمجید لارمی، بشارت بخاری، سیف الدین بٹ اور محمد شفیع کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔"
سیاسی رہنماؤں کی رہائی: فاروق اور عمر نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا - علی محمد ساگر
پارٹی ترجمان عمران نبی ڈار کا کہنا ہے کہ "عدالت عالیہ کا رخ کرنے کا فیصلہ رہنماؤں کو راحت پہنچانے کے تعلق سے لیا گیا ہے۔ یہ سب رہنما گزشتہ برس پانچ اگست کو حراست میں لیے گئے تھے جس کے بعد انہیں رہا کر کے اپنے گھروں میں قید رکھا گیا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کا صدر کو خط لکھ کر محبوبہ مفتی کی رہائی کا مطالبہ
پارٹی کے ترجمان عمران نبی ڈار کا کہنا ہے کہ "عدالت عالیہ کا رخ کرنے کا فیصلہ رہنماؤں کو راحت پہنچانے کے تعلق سے لیا گیا ہے۔ یہ سب رہنما گزشتہ برس پانچ اگست کو حراست میں لیے گئے تھے جس کے بعد انہیں رہا کر کے اپنے گھروں میں قید رکھا گیا ہے۔"
انہوں نے سوال کیا کہ "رہنماؤں کو رہا کر کے اپنے گھروں میں دوبارہ قید کرنا کہاں تک جائز ہے؟ ہمارے جنرل سیکرٹری علی محمد ساگر پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کو عدالت عالیہ نے منسوخ کر دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ان پر یہ دفعہ لگانا جائز نہیں۔ تاہم اس کے باوجود انہیں اپنے گھر میں قید رکھا گیا۔ جو نا صرف غیر قانونی ہے بلکہ انسانی حقوق اور ذاتی آزادی کی خلاف ورزی بھی ہے۔"
ترجمان نے اُمید ظاہر کی کہ "قانونی ادارے ان کے مقید رہنماؤں کو حق دلاسکتے ہیں۔ گزشتہ برس پانچ اگست جب دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کیا گیا، تبھی سے ہمارے ساتھیوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان میں کچھ رہنما ایسے بھی ہیں جن کی طبیعت ناساز گار ہے۔ ہمارے پاس عدالت کا رخ کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ ہمیں اُمید ہے کہ عدالت اس حوالے سے صحیح فیصلہ لے گی۔"