اہل خانہ نے کہا کہ 'ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ ہلال نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے اور اگر پولیس کا بیان کہ 'ہمارے بیٹے نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے، صحیح ہے تو ہم اپنے بچے سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے گھر آئیں کیونکہ ہم سب یہاں بہت پریشان ہیں۔'
لاپتہ نوجوان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے احتجاج کیا بتادیں کہ بمنہ سے تعلق رکھنے والا کشمیر یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی اسکالر ہلال احمد ڈار ولد مرحوم غلام محی الدین ڈار وسطی ضلع گاندربل کے نارہ ناگ علاقے میں 13 جون کو ٹریکنگ کے دوران غائب ہوا۔
اتوار کے روز سری نگر میں ہونے والی تصادم آرائی میں ہلاک ہونے والے تین عسکریت پسندوں میں پہلے اس کا نام بھی آیا تھا جس کی بعد میں تردید کی گئی تھی۔
کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے بدھ کے روز کہا کہ پی ایچ ڈی اسکالر ہلال احمد نے حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔
لاپتہ جوان سال پی ایچ ڈی اسکالر ہلال احمد کے افراد خانہ اور رشتہ داروں نے بدھ کے روز یہاں پریس کالونی میں ایک بار پھر احتجاج کیا۔ احتجاجیوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر 'وی وانٹ جسٹس، جسٹس فار ہلال، ہلال کو ڈھونڈنے میں ہماری مدد کی جائے' جیسے نعرے درج تھے۔
لاپتہ نوجوان کے چچا نثار احمد نے نامہ نگاروں کو بتایا: 'کل ڈی جی پی صاحب کا بیان آیا کہ بمنہ کے نوجوان نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ لیکن جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس کا ملی ٹنسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا: 'کبھی بولتے ہیں کہ وہ تصادم میں مارا گیا تو کبھی بولا جاتا ہے کہ وہ جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوا ہے۔ اگر ہمارا بچہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرچکا ہے تو پھر حکومت کی مختلف ٹیمیں اسے پہاڑوں میں کیوں ڈھونڈ رہی ہیں۔ نارہ ناگ میں پولیس تھانہ کنگن نے ایک پوسٹر چسپاں کیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ پولیس اس لڑکے کی تلاش میں ہے'۔
نثار احمد نے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ سے اپیل کرتے ہوئے کہا: 'ہم کسی کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم بہت کمزور ہیں۔ ہم تو صرف اپیل ہی کر سکتے ہیں۔ ہم پولیس سربراہ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے اور ہمارا لڑکا جہاں بھی ہے ہمیں اس کی لوکیشن بتا دیں۔ ہم اس کے پاس جائیں گے اور اس کو منا کر واپس لائیں گے۔ یہ اپنی طرف سے بھی اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرسکتے ہیں تاکہ وہ لڑکا بازیاب ہوجائے'۔
انہوں نے کہا: 'ہم گھر میں سب پریشان ہیں۔ ہلال ایک پڑھا لکھا اور ریسرچ اسکالر ہے۔ اس کا تعلیمی کیریئر تابناک رہا ہے۔ ہم ایک معصوم جان کو کیسے ضائع ہونے دیں گے۔ ویسے تو ہم ڈی جی صاحب کے بیان کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم اپنے بچے کے برتاو سے بخوبی واقف ہیں۔ اگر ڈی جی صاحب کا بیان صحیح ہے تو ہم اپنے بچے سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے گھر آئیں ہم بہت پریشان ہیں اور پولیس سربراہ سے بھی اپیل ہے کہ وہ بحفاظت گھر آنا چاہیے'۔
نثار احمد نے کہا کہ پولیس نے وعدہ کیا ہے کہ اگر اس نے ملی ٹنسی جوائن کی ہے اور گھر والوں کے کہنے پر واپس گھر آتا ہے تو اس کو گرفتار نہیں کریں گے۔
انہوں نے آگے کہا: 'مگر ہمیں نہیں پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے۔ اگر ہمیں پتہ ہوتا ہے تو ہم اسے پہاڑوں میں نہیں ڈھونڈتے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے۔ اگر ان کو اور ان کی ایجنسیوں کو معلوم ہے تو ہمیں بتائیں اور ہم اس کو واپس لائیں گے۔ ہم اس کو آمادہ کریں گے کہ اگر اس نے کوئی غلطی کی ہے تو اس کے لئے معافی مانگیں۔ لیکن ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ اس نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے'۔