اس کشیدگی کے باعث جہاں دنیا بھر کی نظریں اس جانب مرکوز ہیں وہیں کشمیر میں وادی گلوان سوشل میڈیا اور دیگر حلقوں میں موضوع بحث ہے۔
گلوان وادی کشمیر میں موضوع بحث اس لیے ہے کیوںکہ اس وادی کا نام کشمیر کے باشندے غلام رسول شاہ (گلوان) کے نام سے منصوب ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے غلام رسول گلوان کے پوتے محمد امین گلوان سے بات کی اور جاننا چاہا کہ غلام رسول گلوان کون تھے اور لداخ کے اس دور دراز مقام کو گلوان وادی کے نام سے کیوں جانا جاتا ہے۔
غلام رسول گلوان کے پوتے محمد امین گلوان سے خصوصی بات چیت محمد امین گلوان کا کہنا ہے مہاراجہ کے دور اقتدار میں غلام رسول گلوان کے داد قرہ گلوان کو مہاراجہ نے بگایا تھا اور انہوں نے بلتستان میں پناہ لی تھی۔
انہوں نے کہا رسول گلوان لیہ میں 1878 میں پیدا ہوئے تھے اور 12 برس کی عمر میں انہوں نے انگریزوں سیاحوں کے ساتھ بحیثیت گایڈ کام کرنا شروع کیا تھا اور انکو وہ وسطی ایشیا یا ترکستان لیا جائا کرتے تھے۔ انکا کہنا ہے کہ غلام رسول گلوان کا خاندان اس وقت لداخ میں رہایش پزیر ہے ۔
انکا کہنا تھا کہ ایک دفعہ موسم کی خرابی کی وجہ سے انگریزوں کے ایک قافلہ راہ سے بھٹک گیا لیکن رسول گلوان نے انکی مدد کے لئے آئے اور اسی وادی سے انکو اپنے منزل تک پہنچنے میں مدد کی، جس کے عوض میں انگریزوں نے اس جگہ کا نام گلوان وادی رکھا۔
انکا کہنا تھا کہ ایل اے سی پر کشیدہ حالات کی وجہ سے لداخ کے عوام مین خوف و تشویش ہے اور ملک کی فوج کی مئومنٹ ایل اے سی کی جانب بڑھ گئی ہے۔
دو ہفتے قبل ای ٹی وی بھارت نے لداخ خطے کے مصنف اور مؤرخ عبدالغنی شیخ نے وادی گلوان اور غلام رسول گلوان کے متعلق بات مکی تھی جس دوران انکا کہنا تھا کہ غلام رسول شاہ کا خاندان کشمیر سے تعلق رکھتا ہے اور وہ اُس وقت کے حکمرانوں کے گھوڑوں کی رکھوالی کرتے تھے جس سے وہ گلوان کے نام سے مشہور ہو گئے۔
کشمیر میں گلوان اس شخص کو کہا جاتا ہے جو گھوڑوں کی تجارت یا رکھوالی کرتا تھا یہ بادشاہوں کے زمانے میں کافی اہم مانے جاتے تھے لیکن اب ان کی یہ تجارت نایاب ہوتی جا رہی ہے، تاہم نام باقی ہے۔
84 برس کے عبدالغنی شیخ لیہہ سے تعلق رکھتے ہیں اور لداخ کی تاریخ پر انہوں نے پانچ کتابیں تصنیف کی ہیں۔کشمیر میں گلوان وادی موضوع بحث کیوںانہوں نے کہا کہ غلام رسول گلوان اس وقت کے انگریز حکمران اور وسطی ایشیا سے آنے والے محققین اور مورخین کے ہمراہ گلوان وادی جاتے تھے۔
غلام رسول گلوان نے اپنی تصنیف 'سرونٹ آف صاحبس' میں اس وادی اور اپنے سفر کے متعلق کافی معلومات قلمبند کی ہیں۔
بھارت اور چین کے مابین تازہ کشیدگی مئی کے پہلے ہفتے میں شروع ہوئی تھی جب پانچ مئی کو چینی فوجی اہلکار گلوان وادی میں بھارتی حدود میں داخل ہوئے اور بعد ازاں ایک ہفتہ کے بعد 12 مئی کو پیونگ یانگ جھیل سیکٹر میں بھی قابض ہو گئے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق پیونگ یانگ جھیل علاقے میں پانچ مئی کو ہندوستان اور چینی فوجی اہلکاروں کے درمیان لاٹھیوں اور سلاخوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں اور سنگ باری بھی جس میں طرفین کے فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔
اطلاعات کے مطابق چین نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران گلوان وادی میں خصوصی طور پر اپنی موجودگی کو مستحکم کرتے ہوئے ایک خیمے نصب کئے ہیں اور بنکروں کی تعمیر کے لیے ضروری ساز و سامان بھی لایا جا رہا ہے۔ جبکہ بھارتی فوجی اہلکار بھی حساس علاقوں بشمول ڈمچوک اور دولت بیگ اولڈی میں جارحانہ انداز میں گشت کر رہے ہیں۔
ہندوستان کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کا ماننا ہے کہ گلوان وادی کے کئی اہم علاقوں میں چینی فوج کی موجودگی باعث فکر مندی ہے۔