اردو

urdu

مختلف ممالک کے سفارت کاروں کا دورۂ جموں و کشمیر

معروف صحافی سمیتا شرما نے ای ٹی وی بھارت کے لیے تجزیاتی رپورٹ میں غیر ملکی سفیروں کے جموں و کشمیر دورے سے متعلق معلومات فراہم کیں۔

By

Published : Jan 10, 2020, 5:28 PM IST

Published : Jan 10, 2020, 5:28 PM IST

Updated : Jan 10, 2020, 10:48 PM IST

مختلف ممالک کے سفارت کاروں کا دورہ جموں و کشمیر
مختلف ممالک کے سفارت کاروں کا دورہ جموں و کشمیر

آرٹیکل 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کی تنظیم نو کے بعد یورپی یونین کے ایک غیر سرکاری وفد کے متنازع دورہ جموں و کشمیر کے دو ماہ بعد امریکہ اور ناروے سمیت دیگر کئی ممالک کے سفارت کاروں کا ایک اور وفد نو منظم کردہ یونین ٹریٹری کے دورے پر ہے۔

اس مرتبہ بھارت میں امریکی سفیر کنیتھ جسٹر اور ناروے کے سفیر ہنس جیکوب فرڈنلڈ سمیت بھارت میں تعینات مختلف ممالک کے پندرہ سفراء جمعرات کو نئی دلی کے اہتمام سے سرینگر اور جموں کے سرکاری دورے پر پہنچے۔

پروگرام کے مطابق ان غیر ملکی سفیروں کو پہلے سرینگر پہنچ کر وہاں کئی سیول سوسائٹی گروپوں سے ملنا تھا اور بعد میں مختلف سرکاری ایجنسیوں سے سکیورٹی و دیگر زمینی صورتحال سے متعلق جانکاری لینی تھی جس کے بعد انہیں جموں جا کر وہاں لیفٹننٹ گورنر جی سی مرمو اور دیگر سرکاری حکام سے تبادلہ خیال کرکے ان سے مزید جانکاری حاصل کرنا ہے۔

ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ 'ہمیں نئی دہلی میں مقیم بعض غیر ملکی سفیروں کی یہ درخواستیں مل رہی تھیں کہ وہ جموں و کشمیر کی یونین ٹریٹری کا دورہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارا متواتر موقف یہ رہا ہے کہ ہم سکیورٹی صورتحال کا جائز لینے اور جموں و کشمیر کی انتظامیہ سے زمینی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی ایسی کسی درخواست پر غور کرسکتے ہیں۔

ذرائع نے مزید کہا کہ 'ہمارے اسی موقف کے تحت نئی دہلی میں مقیم غیر ملکی سفیروں کے پندرہ رکنی وفد کو 9 اور10 جنوری کو جموں و کشمیر کی یونین ٹریٹری میں صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے کئے جارہے سرکاری اقدامات کا از خود جائزہ لینے کے لیے لیا جارہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 'وفد میں کئی لاطینی، امریکی اور افریقی ممالک، یونائیٹڈ اسٹیٹس،موراکو، گوئیانا، فجی، ٹوگو، برازیل، نائیگر، نائجیریا، ارجنٹینا، فلپائن، ناروے، مالدیپ، ویتنام، پیرو، ازبکستان، بنگلہ دیش اورجنوبی کوریا کے سفیر اور سفارت کار شامل ہیں۔

امریکہ اور ناروے کے سفارت کاروں کی اس وفد میں شمولیت اپنے آپ میں اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ان دونوں ممالک میں کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے بعض نازک سوالات پوچھے جاتے رہے ہیں، اس دورے کی تکمیل پر وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک باضابطہ بیان بھی متوقع ہے۔

ذرائع کے مطابق ابھی کے اس دورے کی تکمیل کے کچھ وقت بعد ہی نئی دہلی میں مقیم دیگر کئی ممالک کے سفارت کاروں کے ایک اور وفد کو وادی لے جانے کی کوششیں بھی جاری ہیں اور اس بارے میں کئی ممالک کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے۔

تاہم بعض ذرائع سے یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ یورپی یونین کے سفراء مزید رسائی، آسان شرائط کے نفاذ اور جموں و کشمیر میں نظر بند تین سابق وزرائے اعلیٰ،فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے ساتھ ملاقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حالاںکہ سرکاری ذرائع نے ان اطلاعات کو 'بے بنیاد اور شرانگیز قرار دیا ہے جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یورپی یونین کے بعض ممبران نے یہ کہہ کر جموں و کشمیر کے دورے پر جانے سے انکار کیا ہے کہ ان پر دورے کے دوران بعض پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

ان ذرائع کا کہنا ہے 'ہم، سفیروں کے ایک عالمی گروپ، جس میں یورپی یونین کے سبھی نہیں بلکہ چند سفیر شامل ہوں،کو جموں و کشمیر کے دورے پر لے جانا چاہتے تھے، یورپی یونین کے سفراء نے ہماری اس پہل کا خیر مقدم تو کیا تاہم وہ اپنے ایک گروپ کی شکل میں جموں و کشمیر جانا چاہتے تھے لیکن ان سبھی کو ایک ہی گروپ میں شامل کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ایسے میں یہ وفد وسیع البنیاد نہیں ہوسکتا تھا۔

ان ذرائع نے مزید کہا کہ یورپین یونین کے کسی بھی سفیر نے کسی نظربند سیاسی رہنما سے ملاقات کی اجازت نہیں مانگی ہے۔

ذرائع نے نے مزید دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ 'بعض یورپی یونین سفیروں نے پیغام بھجوایا کہ چونکہ جموں و کشمیر کا دورہ عجلت میں ہورہا ہے جبکہ انہیں اپنے ہیڈکوارٹرس سے ہدایات لینے میں وقت لگے گا، دورے پر جانے والے گروپ کے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے لیے آزاد ہے بشرطیہ سکیورٹی کی صورتحال اس چیز کے لیے موزوں ہو۔

ان ذرائع نے قطعی طور کہا کہ کسی بھی سفیر نے جموں و کشمیر میں خصوصیت کے ساتھ کسی بھی نظربند کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت نہیں چاہی ہے'۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں یورپی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کے 24 ممبران کے جموں و کشمیر کے نجی دورے نے ایک بڑا تنازع کھڑا کیا تھا، اس وقت ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ اس 'نجی دورے کی تائید' کا مقصد پاکستانی نژاد یورپی سیاستدانوں کی 'مظبوط لابئنگ' کا توڑ کرنا تھا اور یہ دورہ اگلے مہینوں میں ہونے جارہے کئی 'اہتمام کردہ' دوروں میں سے پہلا ہے۔

Last Updated : Jan 10, 2020, 10:48 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details