کشمیر میں غیر یقینی صورتحال کا 125 واں دن
کشمیر میں 125 دنوں سے جاری غیر یقینی کیفیت کے بیچ ہفتے کے روز بھی ہفتہ رفتہ جیسی صورتحال سایہ فگن رہی، بازاروں میں کہیں نصف دن تو کہیں نصف دن کے بعد گہماگہمی رہی تاہم ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل میں دن بھر کوئی کمی یا خلل واقع نہیں ہوئی۔
بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو فاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے خلاف غیر اعلانیہ ہڑتال کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے نقوش ہنوز جاری ہیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے تمام اضلاع و قصبہ جات بشمول شہر سری نگر میں ہفتے کے روز بھی ہفتہ رفتہ جیسی صورتحال ہی سایہ فگن رہی۔ بازاروں میں کہیں نصف دن تک تو کہیں نصف دن کے بعد گہماگہمی رہی تاہم ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل میں دن بھر کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
عینی شاہدین کے مطابق وادی کی تمام چھوٹی بڑی سڑکوں پر دن بھر پرائیویٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل جاری رہی اور کئی پرائیویٹ اسکولوں کی گاڑیوں کو بھی سڑکوں پر صبح اور سہ پہر کے وقت اسکولی بچوں، جو سردی سے سہمے سہمے تھے، لے کر رواں دواں تھیں۔
ادھر وادی میں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز کی معطلی مسلسل جاری ہے جس کے باعث مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا اور تاجروں کو گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
انٹرنیٹ سہولیات پر جاری پابندی کے باعث نیٹ امتحانات میں حصہ لینے کے خواہش مند زائد از 24 ہزار امیدواروں کو متنوع مسائل کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے زائد از 24 ہزار امیدواروں کو آن لائن فارم جمع کرنے کے لئے ٹی آر سی سری نگر میں صرف 30 کمپیوٹروں کا بند وبست ہے جبکہ ہر ضلع صدر مقام پر این آئی سی سینٹروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے لیکن ان سینٹروں میں تاجروں اور دیگر لوگوں کا بھی رش رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ این ای ای ٹی کے امیدواروں کو فارم جمع کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو کے مشیر فاروق خان نے گزشتہ روز ایک تقریب کے دوران کہا کہ کشمیر میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کو عنقریب بحال کیا جائے گا۔
دریں اثنا لداخ کی مختلف سیاسی ومذہبی لیڈروں کا ایک وفد گزشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقی ہوا۔ وفد نے وزیر اعظم کو لداخ یونین ٹریٹری میں تبدیل ہوجانے کے بعد لوگوں میں اراضی، نوکریوں اور ثقافت کے متعلق پیدا شدہ خدشات سے آگاہ کیا۔
وادی کی میں اسٹریم جماعتوں سے وابستہ بیشتر لیڈران جن میں تین سابق وزائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں، لگاتار نظر بند ہیں۔
انتظامیہ نے ایک طرف محبوس سیاسی لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ جاری رکھا ہے تو دوسری طرف متذکرہ سابق وزرائے اعلیٰ کو سردی کے پیش نظر جموں منتقل کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔
حال ہی میں سردی کے پیش نظر 33 لیڈروں کو سنتور ہوٹل سے مولانا آزاد روڑ پر واقع ایم ایل اے ہوسٹل منتقل کیا گیا۔ مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔