ماہر نفسیات اور انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیرو سائنس کے ایچ او ڈی ڈاکٹر محمد مقبول نے کہا کہ گزشتہ برس کورونا وائرس کے خوف کی وجہ ذہنی تکالیف میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا تھا، اس کے مقابلے میں وادی کشمیر میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سامنے آنے کے بعد گزشتہ دو ماہ سے اس طرح کا خوف نہیں پایا جارہا۔ البتہ اس سے قطعی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کی دماغی صحت پر ناکارہ اور مضر اثرات مرتب نہیں ہوسکتے ہیں۔
ان باتوں کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیرو سائنس کے ایچ او ڈی ڈاکٹر محمد مقبول نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج کل جب سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن اور دیگر ذرائع سے کورونا وائرس سے بڑھتے معاملات، کورونا سے مرنے والوں کی لاشیں، قبروں اور شمشان گھاٹوں پر دل دہلانے والے مناظر ایک عام انسان دیکھتا ہے تو ذہن منتشر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے جس کے باعث پھر کئی افراد کے ذہن میں کافی وقت تک اسی طرح کے واقعات گردش کرتے رہتے ہیں اور پھر نتیجتا نفسیات پر دباؤ بڑھنے میں دیر نہیں لگتی ہے جس کے باعث ڈپریشن، بے چینی اور دیگر ذہنی تکالیف کو لے کر مریض سامنے آتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب ڈاکٹر مقبول نے کہا کہ اس طرح کے خوفناک یا ڈروانے قسم کے ویڈیوز کو دیکھنے سے پرہیز کیا جانا چائیے۔ وہیں چھوٹے بچوں کو بھی موبائل سے اس وقت دور رکھا جانا چائیے تاکہ وہ کسی ذہنی مرض یا تکلیف کے شکار نہ ہوں۔