سرینگر شہر کے بربر شاہ علاقے میں رہنے والے چالیس برس کے معراج الدین بٹ پانچ اگست سے قبل ایک بس چلایا کرتے تھے جو انہوں نے 2016 میں بینک سے لون لے کر خریدی تھی۔ بس چلا کر بٹ اپنے اہل وعیال کے لیے دو وقت کی روٹی اور تعلیم کا بندوبست کرتے تھے۔ تاہم اب مجبوری کے سبب انہیں اپنے ہی محلے میں ایک چائے کی ریڑھی لگا کر اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنا پڑ رہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بٹ نے کہا کہ 'سنہ 2016 میں میں نے بینک سے لون لے کر گاڑی خریدی۔ وادی میں نامساعد حالات کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے برہان وانی کی ہلاکت، اس کے بعد ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد علاقے میں عائد پابندیوں اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن۔ جب بھی ہمیں لگتا ہے کی اب سب ٹھیک ہو جائے گا اور ہمارے حالات بدلیں گے تبھی کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میرے دو بچے ہیں۔ میرا بیٹا ساتویں جماعت میں پڑھتا ہے اور بیٹی چھٹی جماعت میں۔ کھانے کا خرچ، ان کی تعلیم کا خرچ، سب کے بارے میں سوچنا اور بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ آخر کب تک لوگوں کے بھروسے رہا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں اپنے پرائے ہو جاتے ہیں تو غیروں سے کیا امید رکھی جائے۔ آخر بات آپ پر ہی آتی ہے اور آپ کو ہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں ڈرائیور ہوں اور میرا چائے کی ریڈی کے ساتھ دور دور تک کوئی بھی ناطہ نہیں ہے تاہم اپنے اہل وعیال کے لیے یہ بھی کرنا پڑ رہا ہے۔'
انتظامیہ شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کو دوبارہ بحال کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے تاہم بٹ کا ماننا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے دی گئی تجویز انہیں اور دیگر ٹرانسپورٹرز کو قابل قبول نہیں ہے۔