اردو

urdu

ETV Bharat / state

بس ڈرائیور بنا چائے والا

جموں و کشمیر میں گزشتہ برس پانچ اگست سے عا‏ئد پابندیوں کے بعد وادی کے تمام شعبہ جات سے وابستہ افراد کو شدید مشکلات سامنا رہا ہے۔ پابندیوں کا سب سے زیادہ خمیازہ یہاں کے عوامی ٹرانسپورٹ سے منسلک افراد کو اٹھانا پڑا۔ حالت یہ ہے کی اس پیشے سے وابستہ کئی افراد نے عارضی طور پر دوسرے کام کرنے شروع کر دیے ہیں۔

بس ڈرائیور بنا چائے والا
بس ڈرائیور بنا چائے والا

By

Published : Jun 13, 2020, 8:38 PM IST

سرینگر شہر کے بربر شاہ علاقے میں رہنے والے چالیس برس کے معراج الدین بٹ پانچ اگست سے قبل ایک بس چلایا کرتے تھے جو انہوں نے 2016 میں بینک سے لون لے کر خریدی تھی۔ بس چلا کر بٹ اپنے اہل وعیال کے لیے دو وقت کی روٹی اور تعلیم کا بندوبست کرتے تھے۔ تاہم اب مجبوری کے سبب انہیں اپنے ہی محلے میں ایک چائے کی ریڑھی لگا کر اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنا پڑ رہا ہے۔

بس ڈرائیور بنا چائے والا

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بٹ نے کہا کہ 'سنہ 2016 میں میں نے بینک سے لون لے کر گاڑی خریدی۔ وادی میں نامساعد حالات کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے برہان وانی کی ہلاکت، اس کے بعد ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد علاقے میں عائد پابندیوں اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن۔ جب بھی ہمیں لگتا ہے کی اب سب ٹھیک ہو جائے گا اور ہمارے حالات بدلیں گے تبھی کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میرے دو بچے ہیں۔ میرا بیٹا ساتویں جماعت میں پڑھتا ہے اور بیٹی چھٹی جماعت میں۔ کھانے کا خرچ، ان کی تعلیم کا خرچ، سب کے بارے میں سوچنا اور بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ آخر کب تک لوگوں کے بھروسے رہا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں اپنے پرائے ہو جاتے ہیں تو غیروں سے کیا امید رکھی جائے۔ آخر بات آپ پر ہی آتی ہے اور آپ کو ہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں ڈرائیور ہوں اور میرا چائے کی ریڈی کے ساتھ دور دور تک کوئی بھی ناطہ نہیں ہے تاہم اپنے اہل وعیال کے لیے یہ بھی کرنا پڑ رہا ہے۔'

انتظامیہ شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کو دوبارہ بحال کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے تاہم بٹ کا ماننا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے دی گئی تجویز انہیں اور دیگر ٹرانسپورٹرز کو قابل قبول نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'اس گھڑی سے میں روزانہ دو سو سے تین سو روپے کما لیتا ہوں۔ جس سے میرے گھر کا خرچہ چلتا ہے۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر کے تحت ایک گاڑی میں صرف 15 مسافروں کو سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ اس سے ہمارا کیا ہوگا ہم کیا کمائیں گے۔ ہمارے نقصان کی بھرپائی کیسے ہوگی۔ کیا وہ نہیں جانتے تیل کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں؟ پچھلے بارہ مہینوں سے ہم لوگ بینک کی قسط ادا نہیں کر پائے ہیں۔ قرضہ میں ڈوب چکے ہیں انتظامیہ کی اس پھول سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔'

بٹ روز صبح اٹھ کر اپنی گاڑی کی صفائی کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ گاڑی بھی ان کی اولاد کی طرح ہے۔ انہیں امید ہے کہ حالات جب ٹھیک ہوں گے وہ صرف اپنی گاڑی کو سری نگر شہر کی سڑکوں پر چلائیں گے اور اپنی زندگی عزت اور شان و شوکت کے ساتھ بسر کریں گے۔

نا امیدی کو کفر قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ 'کنڈکٹر کی لگن، ڈرائیور کا پسینہ، چلتی ہے سڑکوں پر گاڑی بن کے حسینہ۔ اتنا لمبا عرصہ ہم نے کیسے گزارا ہے یہ صرف ہم اور ہمارا خدا جانتا ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ زندہ رہنے کی امید بھی بہت کم ہے۔'

یہ کہانی صرف معراج الدین بٹ کی نہیں بلکہ ان کے جیسے تمام ڈرائیوروں کی ہے، کنٹریکٹروں کی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے اپنے اہل وعیال کو پالنے کے لیے روزانہ اس امید کے ساتھ جاگتے ہیں کہ آج کا دن کل سے بہتر ہوگا اور گاڑی کا چلتا پہیا ان کی تقدیر بھی ایک روز ضرور بدلے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details