گذشتہ ماہ 24 تاریخ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کے 14 سیاسی لیڈران کے ساتھ یونئن ٹریٹری کے سیاسی امور پر گفتگو کی جس کے بعد یہاں کی سیاسی جماعتیں متحرک ہو گئی ہیں۔
اس ملاقات کے دوران نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی پر عوامی و سیاسی حلقوں کی نگاہیں مرکوز تھیں کیونکہ یہ دونوں جماعتیں پیپلز الائنس فار گپکار کے دو بڑے دھڑے ہیں۔ لیکن پی ایم مودی سے ملاقات کے بعد پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلیریشن میں دوریاں بڑھ گئی ہیں۔
جون 28 کو ہونے والی گپکار الائنس کی میٹنگ منسوخ ہوئی اور اس کی وجہ پی ڈی پی صدر محبوبہ کا اس میں شامل نہ ہونا تھا۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے وہ میٹنگ میں شامل نہیں ہو سکیں۔ تاہم اسی روز محبوبہ مفتی جنوبی کشمیر کے ترال علاقے میں ہلاک کیے گئے پولیس اہلکار اور اس کے خاندان کی تعزیت کے لیے گئیں۔
دراصل نریندر مودی سے ملاقات کے دوران اور اس کے بعد نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے بیانات دفعہ 370 کی منسوخی اور بھارت پاکستان کے مابین بات چیت کے معاملے میں مختلف تھے۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے میٹنگ کے بعد کہا تھا کہ انہوں مرکزی سرکار کو دفعہ 370 کی بحالی اور کشمیر مسئلے پر مرکزی سرکار کو پاکستان کے ساتھ بات چیت کی شروعات کرنے پر زور دیا تھا۔
تاہم نیشنل کانفرس کے نائب صدر عمر عبداللہ کے بیان میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کا ذکر نہیں ہوا۔
دفعہ 370 کی منسوخی پر عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ دفعہ 370 کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور ان کی امیدیں عدالت پر ہیں۔