سرینگر:’’کشمیر کنسرن فاؤنڈیشن‘‘ اور ’’اسلامک ریلیف اینڈ ریسرچ ٹرسٹ‘‘ کے باہمی اشتراک سے ’احاطہ وقار، چھانہ پورہ‘ میں ایک ادبی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت معتبر قلمکار اور ادیب پرفیسر محمد زمان آزردہ اور ریٹائرڈ جسٹس رشید علی ڈار نے انجام دی۔ تقریب تین نشستوں پر مشتمل تھی اور پہلی نشست میں مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت ریڈیو کشمیر سرینگر کے سابق ڈایریکٹر سید ہمایوں قیصر نے انجام دی جبکہ دوسری نشست میں ایڈوکیٹ عبد الرشید ہانجورہ کی کشمیری زبان میں تحریر کردہ کتاب ’’بونہ شہجار‘‘ کی رسم رونمائی انجام دی گئی۔ کتاب ایک خود نوشت سوانح عمری ہے جسکا ترجمہ پہلے ہی اردو اور انگریزی زبانوں میں کیا جا چکاہے۔ ’’بونہ شہجار‘‘ کتاب پر معروف ادیب، شاعر و قلمکار اور کشمیر مرکز ادب وثقافت کے جنرل سیکریٹری عنایت گل اور ڈاکٹر رؤف عادل کرالہ واری نے پُر مغز مقالات پڑھے۔
اس موقع پرکشمیر کنسرن فاؤنڈیشن و اسلامک ریلیف ٹرسٹ کی جانب سے چار معتبرشعراء کو ایوارڈ اور اسناد سے نوازا گیا۔ ان میں عبدلرحمٰن لطیف کو مقبول شاہ کرالہ واری ایوارڈ، اسد اللہ اسد کو شیخ العالم ایوارڈ، غلام محی الدین شاہین کو کرم بلند ایوارڈ اور پیر محی الدین کو یاسین شاہ ایوارڈ، بہترین کارکردگی کے اعتراف میں عطا کئے گئے۔ جبکہ تقریب کی تیسری نشست میں اسلامک ریلیف اینڈ ریلیف ٹرسٹ کی جانب سے صحافت کے میدان میں بہترین کارکردگی کی بنیاد پر کئی صحافیوں کو بھی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
اس موقع پر محفل مشاعرہ کے صدر ہمایون قیصر نے اپنے زرین خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شعراء کرام نے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کئے اور دل محظوظ ہوئے۔ انہوں نے کہا: ’’نبی (ﷺ) کی شخصیت صرف روایات پر ہی مبنی نہیں ہے بلکہ ان کی گھریلو زندگی کو گھروں میں داخل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تقریبات کا انعقاد کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ قیصر نے ایڈوکیٹ ہانجورہ کی سماجی اور ادبی خدمات کی سراہنا کی۔
اس موقع پرسابق بیورکیٹ اور نامور ادیب اور اردو کونسل کے نائب صدر اعجاز احمد ککرو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایڈوکیٹ اے آر ہانجورہ کی سماجی خدمات کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ موصوف نے ابتدائی زندگی سے ہی ٹاک زینہ گیری مرحوم جیسے عظیم سماجی شخصیت کی تربیت میں سماجی خدمات انجام دینے کی شروعات کی ہے اور یتیموں و مسکینوں کے تئیں ان کی کارکردگی قابل ستائش ہے۔ انہوں نے ان کی خودنوشت کے بارے میں کہا کہ ’’موصوف نے حالات زندگی تو درج کیا ہے لیکن ایک اعتدال قائم کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تعریف کرنے کے بجائے اہم واقعات کو ضبط تحریر میں لایا ہے۔‘‘