نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو ( این سی آر بی) کی حال ہی میں شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق 'منی پور اور تمل ناڈو کے بعد جموں کشمیر میں یو اے پی اے کے سب سے زیادہ معاملے درج کیے گئے ہیں۔ پورے ملک میں یو اے پی اے کے تحت 1226 معاملہ درج کیے تھے ان میں سے 20 فیصد معاملے جموں و کشمیر سے ہیں۔'
رپورٹ کے مطابق یو اے پی اے کے تحت منی پور میں 306 اور تمل ناڈو میں 270 کیسز درج کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 'سنہ 2014 میں جموں کشمیر میں یو اے پی اے کے تحت صرف 45 معاملے درج کیے گئے تھے تاہم سنہ 2018 میں یہ معاملے بڑھ کر 245 تک جا پہنچے۔ وہیں ملک کی 11 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام چھ علاقوں میں ایک بھی معاملہ درج نہیں کیا گیا۔'
گزشتہ ہفتے جموں و کشمیر پولیس نے عسکری تنظیم لشکر طیبہ سے وابستہ چار عسکریت پسند اور تین عسکری معاونین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملے درج کیے تھے۔ وہیں گزشتہ ماہ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں ایک عسکریت پسند کی یاد میں کرکٹ میچ کا انعقاد کرنے کے پاداش میں دس کھلاڑیوں کے خلاف یو پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ یو اے پی اے قانون یا اس سے متعلق دفعات ان افراد یا ملزمین پر عائد کیے جاتے ہیں جن سے ملک کی سلامتی کو خطرہ پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
سنہ 1967 میں یو اے پی اے قانون لایا گیا تھا، اس کے پیچھے حکومت کی منشا یہ تھی کہ عسکری مخالف کاروائیوں کو روکا جا سکے۔ اس قانون کے تحت مرکزی سرکار کسی جماعت یا تنظیم کو کالعدم یا کسی فرد کو اس کی مشتبہ و مشکوک اعمال کے سبب گرفتار کر سکتی ہے۔