پلوامہ:جنوبی کشمیر کے ترال علاقے کو قدرت نے اپنی بے پناہ خوبصورتی سے نوازا ہے، جہاں کے فلک بوس پہاڑ، دلکش وادیاں اور جاذب نظر آبشار کسی کو بھی اپنا دیوانہ بنا سکتے ہیں، تاہم اس علاقے کو 1947سے لیکر اب تک وہ توجہ نہیں ملی ہے جس کا یہ علاقہ حقدار تھا جس کی وجہ سے علاقہ جدید دور میں بھی ترقی کی رفتار سے بہت پیچھے ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے علاقے میں تعمیر وترقی کے کئی پروجیکٹ شروع کیے گئے - کئی سڑکوں کی تعمیر اور میکڈمائزیشن سے عوام کو سہولت ملی ہے جس کا اعتراف مقامی لو گ بجا طور پر کر رہے ہیں، حاجن ستورہ سے تعلق رکھنے والی زیتونہ بیگم نامی ایک خاتون نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ان کے علاقے میں سڑک نہ ہونے سے لوگوں کو زبردست مشکلات کا سامنا رہتا تھا تاہم اب سڑک کی تعمیر اور میگڈمائزیشن سے لوگوں کو عبور ومرور میں آسانی ہوگی اور اب ترقی کی نئی منزلیں مل سکتی ہیں۔ تاہم، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس سب کے باوجود ترال علاقے میں آج بھی کئی دیہات میں بنیادی سہولیات کا فقدان عوام کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے کیونکہ سرکاری سطح پر کیے جانے والے دعوے زمینی سطح پر پوری طرح صحیح ثابت ہوتے نظر نہیں آتے۔
گجر بستی، دودھ مرگ کے ایک شہری عبداللہ کھاری کہتے ہیں کہ سرکاری سطح پر کیے جانے والے دعوے سراب ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ جہاں تعلیم کو فروغ دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں وہیں ان کے گاؤں میں موجود گورنمنٹ ہائی اسکول میں شاندار بلڈنگ تو بنی ہے لیکن معقول اسٹاف موجود نہ ہونے کی وجہ سے بورڈ امتحانات میں اسکول کے نتائج گزشتہ برسوں سے غیر تسلی بخش آ رہے ہیں۔